آپ نے خندہ پیشانی سے شھادت کا استقبال کیا

آپ نے سرخ موت کا لباس پھنا جبکہ یہ لباس بعد میں سبز رنگ میں تبدیل ھوگیا “ ۔

”ابوالاحرار“سرور آزادگان نے لوگوں کو ظلم کی مخالفت اور قربانی پیش کر نے کی تعلیم دی مصعب بن زبیر کا کھنا ھے کہ امام(ع) نے ذلت کی زندگی پر عزت کی موت اختیار فر ما ئی ۔[1]اس کے بعد یہ مثال بیان کی :

واِنَّ الاُلیٰ بالطَّفِّ من آل ھاشم

 

تاسوافسنّوالِلکِرامِ التَّآسیا

”کربلا میں بنی ھاشم نے فدا کاری کی اور نیک صفت افراد کےلئے فدا کاری کی رسم رائج کی “۔

روز عاشورہ آپ کی تقریریں اتنی حیرت انگیز تھیں جن کی مثال عزت و بلندی نفس اور دشمن کا منھ  توڑجواب دینے کے متعلق عربی ادب میں نھیں ملتی:”آگاہ ھوجاؤ بیشک ولد الزنا ابن ولد الزنا نے مجھے شھادت اور ذلت کے مابین لا کر کھڑا کردیا ،ھم ذلت سے دور ھیں ،اللہ ،اس کا رسول اور مو منین ذلت سے انکار کرتے ھیں ،ان کی پاک و پاکیزہ آغوش ،ان کی غیرت و حمیت کمینوں کی اطاعت کو بزرگوں کی شھادت پر ترجیح دینے سے انکار کر تی ھے “۔

آپ(ع) روز عاشورہ اموی لشکر کے بھیڑیا صفت درندوں کے درمیان ایک کوہ ھمالیہ کی مانند کھڑے ھوئے تھے اور آپ نے ان کے درمیان عزت و شرافت ،کرامت و بزرگی ،ظلم و ستم کی مخالفت سے متعلق عظیم الشان خطبے ارشاد فرمائے :”واللّٰہ لا اعطیکم بیدی اِعطاءَ الذَّلِیْلِ،ولااَفِرُّ فِرارالعبیدِ،اِنی عذت بربی وربِّکُمْ اَنْ ترجُمُوْنَ۔۔۔“۔

امام کی زبان سے یہ روشن و منور کلمات اس وقت جاری ھوئے جب آپ کرامت و بلندی کی آخری حدوں پر فا ئز تھے جس کا تصور بھی ممکن نھیں ھے اور ان کلمات کو تاریخ اسلام نے ھر دور کے لئے ایک زندہ و پا ئندہ شجاعت اور بھا دری کے کارناموں کے طور پر اپنے دامن میں محفوظ رکھاھے ۔

شعرائے اھل بیت(ع) نے اس واقعہ کی منظر کشی کے سلسلہ میں مسابقہ کیا لہٰذا ان کے کھے ھوئے اشعار، عربی ادب کے مدوّن مصادرمیں بہت قیمتی ذخیرہ ھیں، سید حیدر حلی نے اس دا ئمی واقعہ کی منظر کشی کرتے ھوئے اپنے جد کا یوںمرثیہ پڑھا:

طَمَعَتْ اَنْ تَسُوْمَہُ الْقَوْمُ ضَیْماً

 

وابیٰ اللّٰہُ وَالحُسَامُ الصَّنِیْعُ

کیفَ یلویْ علیٰ الدَّنِیَّةِ جِیِّداً

 

لِسَوَ ی اللّٰہِ مَا لَوَا ہُ الخُضُوْعُ

وَلَدَیْہِ جَاْ شُ اَرَدُّ مِنَ الدِّرْعِ

لِظَما ی الْقَنَا وَ ھُنَّ شُرُوْعُ

وَبِہِ یَرْجِعُ الْحِفَاظُ لِصَدْرٍ

 

ضَاقَتِ الْاَرْضُ وَھِيَ فِیْہِ تَضِیْعُ

فَاَبیٰ اَنْ یَعِیْشَ اِلَّا عَزِیْزاً

 

فَتَجَلّیَ الْکِفَاحُ وَھُوَ صَرِیْعُ[2]

”ستم پیشہ لوگ چا ہتے تھے کہ حسین(ع)اپنی غیرت کا سودا کر لیں جبکہ خدا اور شمشیر حسینی کا یہ منشا نھیں تھا

بھلا حسین کس طرح ذلت قبول کر لیتے جبکہ آپ غیر خدا کے سامنے کبھی نھیں جھکے تھے۔

آپ(ع) کے پاس سپر سے زیادہ مضبوط ھمتِ قلبی تھی وہ ابتدا سے ھی اس طرح جنگ کرتے تھے جس طرح پیاسا پانی کی طرف دوڑ کر جا رھا ھو ۔

زمین کے تنگ ھونے کے باوجود آپ(ع) کا سینہ کشادہ تھا۔

آپ(ع) عزت کی زندگی بسر کرنے کا فیصلہ کر چکے تھے جس کی وجہ سے آپ نے راہ حق میں جان پیش کر دی “

 نفس کے کسی چیز کے انکار کر نے کی اس سے اچھی نقشہ کشی نھیں کی جاسکتی جو نقشہ کشی سید حیدر نے اموی حکومت کے امام حسین(ع) کی اھانت ،ان کو اپنے ظلم و جورکے سامنے جھکانے کے سلسلہ میں کی ھے لیکن یہ خدا کی مرضی نھیں تھی بلکہ خدا یھی چا ہتا تھا کہ آپ کوایسی عظیم عزت سے نوازے جو آپ کو نبوت سے وراثت میں ملی تھی اور آپ اسی بلند مقام اور مرتبہ پر باقی رھیںاسی لئے آپ نے اللہ کے علاوہ کسی کے سامنے سر نھیںجھکایاتوپھرآپ بنی امیہ کے کمینوں کے سامنے کیسے سر جھکاتے ؟اور ان کی حکومت وسلطنت آپ کے عزم محکم کوکیسے ڈگمگا سکتی تھی ۔آپ کا بہترین شعر ھے :

وَبِہِ یَرْجِعُ الْحِفَاظُ لِصَدْرٍ

 

ضَاقَتِ الْاَرْضُ وَھِيَ فِیْہِ تَضِیْعُ

شاعر کی اس تعبیر سے بڑھ کر کیا کو ئی اور تعبیر امام کی غیرت کو بیان کر سکتی ھے ؟اس شاعر نے تمام توانائیوں کو امام کے سینہ سے مختص کیا ھے زمین وسیع ھونے کے باوجود امام کے عزم و ارادہ کا مقابلہ نھیں کر سکتی تھی، اس شعر میں الفاظ بھی زیبا ھیں اور طبیعت انسا نی پر بھی بار نھیں ھیں ۔

مندرجہ ذیل اشعار ملاحظہ کیجئے جن میں امام حسین(ع) کے انکار کی توصیف کی گئی ھے سید حیدر کہتے ھیں :

لقد ماتَ لکنْ مِیتَةُ ھاشمِیَّةً

لَھُمْ عُرِفَتْ تحتَ القنَا المُتَفَصِّدِ

کَرِیْمُ اَبِیْ شَمَّ الدَّنِیَّةِ اَنْفُہُ

 

فَاَشْمَمَہُ شَوْکَ الْوَسِیْجِ الْمُسَدَّدِ

وَقَالَ قِفِیْ یَا نَفْسُ وَقْفَةَ وَارِد

 

حِیاضَ الرَّدیٰ لَا وَقْفَةَ الْمُتَرَدِّدِ

رای اَنَّ ظَھَرَ الذُلِّ اَخْشَنُ مَرْکَباً

مِنَ الْمَوْتِ حیثُ المَوتُ مِنْہُ بِمَرْصَدِ

فَاَثَرَ اَنْ یسعیٰ علیٰ جَمْرَةِ الوَغیٰ

 

بِرِجلٍ ولَا یُعْطِي المُقَادَةَ عَنْ یَد[3]

” امام حسین(ع)مارے تو گئے لیکن ھا شمی انداز میں ،ان کا تعارف ھی نیزہ و شمشیر کوچلانے سے پسینہ میں شرابور ھوجانے سے ھوا ۔آپ کریم تھے اسی لئے آپ نے ذلت قبول کرنے سے انکار کردیا۔

اسی لئے آپ(ع) کو مصائب کا سامنا کرنا پڑا۔

آپ نے اپنے نفس سے مخاطب ھو کر فرمایااے نفس وا دی ھلاکت میں جانے سے رُک جا البتہ شک کرنے والے کے مانند مت رُک۔

آپ نے مشاھدہ کیا کہ مو ت کے مقابلہ میں ذلت قبول کرنازیادہ سخت ھے جبکہ موت آپ کے انتظار میں تھی ۔

اس وقت آپ نے خاردار راھوں میں پیدل چلنا گوارا کیالیکن اپنا اختیار ظالم کے ھاتھ میں دینا پسند نھیں کیا “۔

ھم نے ان اشعار سے زیادہ دقیق اور اچھے اشعار کا مطالعہ نھیں کیا،یہ اشعار امام کی غیرت اور عظمت نفس کو خو بصورت انداز میں بیان کر تے ھیں امام(ع) نے ذلت کی زندگی کے مقابلہ میں تلواروں کے سایہ میں جان دینے کو ترجیح دی اور اس سلسلہ میں آپ(ع) نے اپنے خاندان کے اُن شھداء کا راستہ اختیار فرمایاجو آپ سے پھلے جنگ کے میدانوں میں جا چکے تھے ۔

سید حیدر نے امام حسین(ع) کے انکار کی صفت کا یوں نقشہ کھینچا ھے کہ آپ نے پستی ،ظلم و ستم اور دوسروں کی حق تلفی کا انکار کیا ،تیروں اور تلواروں میں ستون کے مانند کھڑے ھوگئے ، کیونکہ ایسا کرنے میں غیرت و شرف و بزرگی محفوظ تھی اور اسی عمدہ صفت کا سھارا لیتے ھوئے سید حیدر نے امام(ع) کے انکار کی نقشہ کشی کی ھے ، وہ غیرت جو آپ میں کوٹ کوٹ کر بھری ھو ئی تھی جیسا کہ دوسرے شاعروں میں بھی بھری ھو ئی تھی اور یہ بات یقینی ھے کہ آپ نے اس سلسلہ میں تکلف سے کام نھیں لیا بلکہ حقیقت بیان کی ھے ۔

سید حیدر نے درج ذیل دوسرے اشعار میں امام حسین(ع) کے اس انکار اور آپ کی بلندی ذات کو بیان کیا ھے اور شاید یہ امام(ع) کے سلسلہ میں کھا گیا بہترین مرثیہ ھو :

وَسامتہُ یرکبُ احدَی اثنتینْ

 

وقد صرَّتِ الحربُ اسنانھا

فَاِمَّا یُریٰ مُذْعِناًاَوْ تموتَ

 

نَفسُ ابی العزُّ اِذْعَانَھَا

فقالَ لھا اعْتَصِمِیْ بِالاِبَائْ


فَنَفْسُ الاَبِیَّ ومَا زَانَھَا

اِذَا لَمْ تَجِدْ غَیْرَ لِبْسِ الھَوَان

 

فَبِالْمَوْتِ تَنْزِعُ جُثْمَانَھَا

رَاَ القَتْلَ صَبْراً شَعَارَالکِرَامْ

 

وَفَخراً یَزِیْنُ لَھَا شَانَھَا

فَشَمَّرَ لِلْحَرْبِ فِیْ مَعْرَکٍ

 

بِہِ عَرَکَ الْمَوْتُ فُرْسَانَھَا

[4]”اس وقت آپ نے خار دار راھوں میںپیدل چلنا پسند کیالیکن اپنا اختیار ظالم کے ھاتھوں دینا پسند نھیں کیا۔

جنگ کے میدان میں امام حسین(ع) نے محسوس کیا کہ یاذلت محسوس کر نا پڑے گی یا عزت کے ساتھ جام شھا دت نوش کرنا پڑے گا۔

اس وقت آپ نے عزت و غیرت کا دامن تھا منے کا فیصلہ کیا ۔

کیونکہ غیرت مند انسان کو جب ذلت کا سامنا کر ناپڑجائے تو وہ اپنے لئے موت اختیار کرلیتا ھے آپ(ع) نے شھادت کو بزرگوں کی عادت اور اپنے لئے فخر محسوس کیا۔

اسی لئے آپ نے جنگ کےلئے کمر کس لی موت اور گھوڑے سواروںکے سامنے سخت جان ھوگئے“۔

امام(ع) کی شان میں سید حیدر کے مرثیے امت عربی کی میراث میں بڑے ھی مشھور و معروف ھیں،ان میں نئی افکار کو ڈھالا گیا ھے ،ان کے اجزاء کو بڑی ھی دقت نظری کے ساتھ مرتب و منظم کیا گیا ھے جس سے ان کو چار چاند لگ گئے اور (ان کے ھم عصرلوگوں کا کھنا ھے )قصیدہ کے ھر شعر میں مخصوص طور پر امام(ع) کا تذکرہ کیا گیا ھے ،عام لوگ ان اشعار کی اصلاح نھیں کر سکتے اور ان اشعار کا ھر کلمہ کمال اور انتھاء تک پھنچا ھوا ھے ۔

**********

[1] تاریخ طبری ،جلد ۶،صفحہ ۲۷۳۔

[2] دیوان سید حیدر،صفحہ ۸۷۔

[3] دیوان سید حید ر،صفحہ ۷۱۔

[4] دیوان سید حیدر،صفحہ ۷۱۔