شجاعت

بڑے بڑے صاحبان ِ فکر و نظرنے پور ی تاریخ میں ایسا شجاع اور ایسا بھادر انسان نھیں دیکھا ،امام حسین(ع) کی ذات با برکت تھی کربلا کے دن آپ نے وہ موقف اختیار فر مایاجس سے سب متحیر ھو گئے ، عقلیں مدھوش ھو کر رہ گئیں ،نسلیں آپ(ع) کی شجاعت اور محکم عزم کے متعلق متعجب ھوکر گفتگو کرنے لگیں ،لوگ آپ کی شجاعت کو آپ کے والد بزرگوار کی شجاعت پر فوقیت دینے لگے جس کے پوری دنیاکی ھر زبان میں چرچے تھے ۔

آپ کے ڈر پوک دشمن آپ کی شجاعت سے مبھوت ھو کر رہ گئے ،آپ ان ھوش اڑا دینے والی ذلت و خواری کے سامنے نھیں جھکے جن کی طرف سے مسلسل آپ پر حملے کئے جارھے تھے ،اور جتنی مصیبتیں بڑھتی جا رھی تھیں اتنا ھی آپ(ع) مسکرا رھے تھے ، جب آپ کے اصحاب اور اھل بیت(ع)کا خاتمہ ھوگیا اور (روایات کے مطابق )تیس ہزار کے لشکر نے آپ پر حملہ کیا تو آ پ نے تن تنھا ان پرایسا حملہ کیا،جس سے ان کے دلوں پر آپ کا خوف اور رعب طاری ھو گیا ،وہ آپ(ع) کے سامنے سے اس طرح بھاگے جارھے تھے جس طرح شیرِ غضبناک(روایات کی تعبیر کے مطابق) کے سامنے بکری بھاگتی ھوئی دکھا ئی دیتی ھے ،آپ(ع) ھر طرف سے آنے والے تیروں کے سامنے جبل راسخ کی طرح کھڑے ھو گئے آپ(ع) کے وقار میں کو ئی کمی نھیں آئی ،آپ کا امر محکم و پا ئیدار اور مو ت کمزور ھو کر رہ گئی ۔

سید حیدرکہتے ھیں :

فَتَلقّی الجُمُوْعُ فَرداً ولٰکِنْ

کُلُّ عُضْوٍ فِی الرَّوعِ مِنْہُ جُمُوْعُ

رُمْحُہُ مِنْ بِنَائِہِ وَکَاَنَّ مِنْ

 

عَزْمِہِ حَدَّ سَیْفِہِ مَطْبُوْعُ

زَوَّ جَ السَّیْفَ بِالنُّفُوْسِ وَلٰکِنْ

 

مَھْرُھَالْمَوْتُ والخِضآبُ النَّجِیْعُ

”امام حسین(ع) نے گرچہ دشمنوں کی جماعت کا تنھا مقابلہ کیالیکن ھیبت کے لحاظ سے آپ(ع) کے بدن کا ھرحصہ کئی جماعتوں کے مانند تھا ۔

آپ(ع) کی انگلیوں کاپور پورنیزے کا کام کرتا تھااپنی بلند ھمت کی بنا پر آپ(ع) کو تلواروں کا مقابلہ کرنے کی عادت پڑگئی تھی ۔

آپ(ع) نے اپنی تلوار کے ذریعہ دشمنوں کی صفوں میں تباھی مچا دی “۔

دوسرے اشعار میں سید حیدر کہتے ھیں :

رَکِیْنٌ وَلِلْاَرْضِ تَحْتَ الْکُماة

 

رَجِیْفْ یُزَلْزِلُ ثَھْلَانَھَا

اَقَرُّ عَلیٰ الارضِ مِنْ ظَھرِھَا

 

اِذَامَلْمَلَ الرُّعْبُ اَقْرَانَھَا

تَزِیْدُ الطَّلَاقَةُ فِیْ وَجْھِہِ

اِذَاغَیَّرَالْخَوْفُ اَلْوَانَھَا

”حالانکہ زمین مسلسل تھر ا رھی تھی لیکن آپ(ع) مضبوطی کے ساتھ پُر سکون تھے ۔

شدید خوف کے مقامات پر بھی آپ(ع) کا چھرہ کھِلا ھوا تھا “۔

جب ظلم و ستم و حق تلفی سے روکنے والے زخمی ھو کر زمین پر گرے اور خون بہہ جانے کی وجہ سے آپ پر غش طاری ھو گیا تو پورا لشکر آپ(ع) کے رعب و دبدبہ کی وجہ سے آپ کے پاس نہ آسکا ۔اس سلسلہ میں سید حیدر کہتے ھیں :

عفیراًمتی عا ینتہ الکُماة

یَخْتَطِفُ الرُّعْبُ اَلوانَھَا

فَما اَجَلَتِ الْحَرْبُ عَنْ مِثْلِہ

صَرِیْعاً یُجَبِّنُ شُجْعَانَھَا

”آپ(ع) زمین کربلا پر خاک آلود پڑے ھوئے تھے پھر بھی بڑے بڑے بھا در آپ(ع) کے نزدیک ھونے سے ڈر رھے تھے “۔

آپ نے اپنے اھل بیت(ع) اور اصحاب کے لئے اس عظیم روح کے ذریعہ ایسی غذا کا انتظام کیا کہ وہ شوق اور اخلاص کے ساتھ مرنے کے لئے ایک دوسرے پر سبقت کر نے لگے اور انھوں نے اپنے دل میں کسی کے ڈر اور خوف کا احساس نھیں کیاخود ان کے دشمنوں نے ان کی پا ئیداری اور خوف نہ کھانے کی شھادت دی اور کربلا کے میدان میںعمر بن سعد کے ساتھ جس ایک شخص نے یہ منظر دیکھا اس سے کھا گیا وائے ھو تم پر تم نے ذریت رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کو قتل کر دیا؟

تو اس نے یوں جواب دیا:وہ سخت چٹان تھے ،جو ھم نے دیکھا اگر تم اس کا مشاھدہ کر تے تو جو کچھ ھم نے انجام دیا وھی تم انجام دیتے ،انھوں نے بھوکے شیر کی طرح ھاتھوں میں تلواریں لئے ھوئے لوگوں پر حملہ کیا تو وہ دا ئیں اور با ئیں طرف بھا گنے لگے ،موت کے گھاٹ اترنے لگے ،نہ انھوں نے امان قبول کی نہ مال کی طرف راغب ھوئے اُن کے اور موت کے درمیان نہ کو ئی فاصلہ باقی رہ گیا تھا اور نہ حکومت پر قبضہ کرنے میںکو ئی دیر تھی اگر ھم ایک لمحہ کےلئے بھی رُک جا تے ،اگر ھم ان سے رو گردانی کربھی لیتے تو بھی یہ لشکر والے اس میں مبتلا ھو جا تے۔[1]

بعض شعراء نے اس شاذ و نادر محکم و پا ئیداری کی یوں نقشہ کشی کی ھے :

فَلَوْوَقَفَتْ صُمُّ الْجِبَالِ مَکَانَھُمْ

 

لَمَادَتْ عَلیٰ سَھْلٍ وَدَکَّتْ عَلیٰ وَعْرِ

فَمِنْ قَائمٍ یَسْتَعْرِضُ النَّبْلُ وَجْھَہُ

 

وَمِنْ مُقْدِمٍ یَرْمِی الاَسِنَّةِ بِالصَّدْرٍِ

لشکر یزید کی جگہ اگر پھاڑ بھی ھوتے تو وہ بھی آپ کی بھادری کی وجہ سے ریزہ ریزہ ھو جاتے۔

آپ(ع) جب کھڑے ھوجاتے تھے تو سامنے سے تیر آنے لگتے تھے اور جب کبھی آگے بڑھنے لگتے تھے توآپ کے سینہ میں نیزے آکے لگنے لگتے تھے“۔

اور سید حیدر کا یہ شعر کتنا اچھا ھے :

دَکُّوا رُبَاھاً ثُمَّ قَالُوا لَھَا

 

وَقَدْ جَثَوا۔نَحْنُ مَکَانَ الرُّبَا!

”انھوں نے ٹیلوں کو ریزہ ریزہ کردیا ھے پھر جب اس پر بیٹھ گئے تو کھنے لگے ھم ٹیلے ھیں “۔

امام حسین(ع)نے فطرت بشری کی نادر استقامت و پا ئیداری کے ساتھ چیلنج پیش کرتے ھوئے موت کی کو ئی پروا نہ کی اور جب آپ(ع) پر دشمنوں کے تیروں کی بارش ھو رھی تھی تو اپنے اصحاب سے فرمایا:”قُوموُارحِمَکُم اللّٰہُ الیٰ المَوْتِ الَّذِیْ لَابُدَّ مِنْہُ فَاِنَّ ھٰذِہِ السّھَامَ رُسُلُ الْقَوْمِ اِلَیْکُمْ۔۔۔“۔

”تم پر خدا کی رحمت ھو اس مو ت کی جانب آگے بڑھوجس سے راہ فرار نھیں کیونکہ یہ تیر دشمنوں کی جانب سے تمھارے لئے موت کا پیغام ھیں “۔

حضرت امام حسین(ع) کااپنے اصحاب کو موت کی دعوت دینا گویا لذیذ چیز کی دعوت دینا تھا ،جس کی لذت آپ(ع) کے نزدیک حق تھی ،چونکہ آپ(ع) باطل کو نیست و نابود کرکے ان کے سامنے پروردگار کی دلیل پیش کرنا چاہتے تھے جو ان کی تخلیق کرنے والاھے ۔[2]

**********

[1] شرح نہج البلاغہ، جلد ۳،صفحہ ۲۶۳۔

[2] الامام حسین،(ع) صفحہ ۱۰۱۔