صراحت

حضرت امام حسین(ع)کی ایک صفت کلام میں صاف گوئی سے کام لینا تھی ،سلوک میں صراحت سے کام لینا ، اپنی پوری زند گی کے کسی لمحہ میں بھی نہ کسی کے سامنے جھکے اور نہ ھی کسی کو دھوکہ دیا،نہ سست راستہ اختیار کیا،آپ(ع) نے ھمیشہ ایسا واضح راستہ اختیار فر مایاجو آپ(ع) کے زندہ ضمیر کے ساتھ منسلک تھااور خود کو ان تمام چیزوں سے دور رکھا جن کا آپ(ع) کے دین اور خلق میں کوئی مقام نھیں تھا ،یہ آپ(ع) کے واضح راستہ کا ھی اثر تھا کہ یثرب کے حاکم یزید نے آپ کو رات کی تا ریکی میں بلایا،آپ(ع) کو معاویہ کے ھلاک ھونے کی خبر دی اور آپ سے رات کے گُھپ اندھیرے میںیزید کے لئے بیعت طلب کی تو آپ(ع) نے یہ فرماتے ھوئے انکار کردیا :”اے امیر ،ھم اھل بیت نبوت ھیں ، ھم معدن رسالت ھیں ،اللہ نے ھم ھی سے دنیا کا آغاز کیا اور ھم پر ھی اس کا خاتمہ ھوگا،یزید فاسق و فاجر ھے ،شارب الخمر ھے ،نفس محترم کا قاتل ھے وہ متجا ھر بالفسق ھے اور میرا جیسا اس جیسے کی بیعت نھیں کر سکتا “۔

ان کلمات کے ذریعہ آپ کی صاف گوئی ،بلندی  مقام اور حق کی راہ میں ٹکرانے کی طاقت کشف ھو ئی ۔

 آپ کی ذات میںاسی صاف گو ئی کی عادت کے موجودھونے کایہ اثر تھا کہ جب آپ عراق کی طرف جارھے تھے تو راستہ میں آپ(ع) کو مسلم بن عقیل کے انتقال اور ان کو اھل کوفہ کے رسوا و ذلیل کرنے کی دردناک خبر ملی تو آپ نے ان افرادسے جنھوںنے حق کی حمایت کا راستہ اختیار نہ کرکے عفو کا راستہ اختیار کیا   فرمایا:”ھمارے شیعوں کو رسوا و ذلیل کیا تم میں سے جو جانا چاھے وہ چلا جائے ، تم پر کو ئی زبردستی نھیں ھے۔۔۔“۔

لالچی افراد آپ(ع) سے جدا ھو گئے ،صرف آپ(ع) کے ساتھ آپ(ع) کے منتخب اصحاب اور اھل بیت علیھم السلام[1] باقی رہ گئے ،آپ(ع) نے ان مشکل حالات میںدنیا پرست افراد سے اجتناب کیا جن میں آپ(ع) کو ناصر و مدد گار کی ضرورت تھی ، آپ(ع) نے سخت لمحات میں مکر و فریب سے اجتناب کیا آپ(ع) کا عقیدہ تھا کہ خدا پر ایمان رکھنے والے افراد کے لئے ایسا کرنا زیب نھیں دیتا۔

اسی صاف گوئی و صراحت کا اثر تھا کہ آپ(ع) نے محرم الحرام کی شب عاشورہ میں اپنے اھل بیت(ع) اور اصحاب کو جمع کر کے ان سے فرمایا کہ میں کل قتل کر دیا جاؤنگا اور جو میرے ساتھ ھیں وہ بھی کل قتل کردئے جائیںگے،آپ(ع) نے صاف طور پر ان کے سامنے اپناامر بیان فر ماتے ھوئے کھا کہ تم رات کی تاریکی میںمجھ سے جدا ھوجا ؤ ،تو اس عظیم خاندان نے آپ(ع) سے الگ ھونے سے منع کر دیا اور آپ(ع) کے سامنے شھادت پرمصر ھوئے ۔

حکومتیں ختم ھو گئیں بادشاہ اس دنیا سے چلے گئے لیکن یہ بلند اخلاق باقی رھنے کے حقدارھیں جو کائنات میں ھمیشہ باقی رھیں گے ،کیونکہ یہ بلند و بالا اور اھم نمونے ھیں جن کے بغیر انسان کریم و شفیق نھیں ھو سکتا ۔

**********

[1] انساب الاشراف، جلد ۱،صفحہ ۲۴۰۔