قوت ارادہ

ابو الشھدا کی ذات میں قوت ارادہ ،عزم محکم و مصمم تھا،یہ مظھر آپ کو اپنے جد محترم رسول اسلام  سے میراث میں ملا تھا جنھوں نے تاریخ بدل دی ،زندگی کے مفھوم کو بدل دیا،تنھا ان طوفانوں کے سامنے ڈٹ کر کھڑے ھوگئے جو آپ(ع) کو کلمہ لاالٰہ الّا اللّٰہ کی تبلیغ کرنے سے روکتے تھے ، آپ نے ان کی پروا کئے بغیر اپنے چچا ابو طالب مو من قریش سے کھا :”خدا کی قسم اگر یہ مجھے دین اسلام کی تبلیغ سے روکنے کے لئے داھنے ھاتھ پر سورج اور با ئیں ھاتھ پر چاند بھی رکھ دیں گے تو بھی میں اسلام کی تبلیغ کرنے سے باز نھیں آو نگا جب تک کہ مجھے موت نہ آئے یا اللہ کے دین کو غلبہ حاصل نہ ھو جائے ۔۔۔“۔

پیغمبر اسلام(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے اس خدا ئی ارادہ سے شرک کا قلع و قمع کردیااور وقوع پذیر ھونے والی چیزوں پر غالب آگئے ،اسی طرح آپ کے عظیم نواسے امام حسین(ع) نے اموی حکومت کے سامنے کسی تردد کے بغیر یزید کی بیعت نہ کر نے کا اعلان فر مادیا،کلمہ حق کو بلند کرنے کےلئے اپنے بہت کم ناصرو مددگار کے ساتھ میدان جھاد میں قدم رکھااور کلمہ  باطل کو نیست و نابود کر دیا جبکہ امویوں نے بہت زیادہ لشکر جمع کیا تھا وہ بھی امام کو اپنے مقصد سے نھیں رو ک سکا،اور آپ نے اس زندئہ جا وید کلمہ کے ذریعہ اعلان فر مایا : ”میں موت کوسعادت کے علاوہ اور کچھ نھیں دیکھتا ،اور ظالموں کے ساتھ زند گی بسر کرنا ذلت کے علاوہ اور کچھ نھیں ھے۔۔۔ “ ۔(اور آپ(ع) ھی کا فرمان ھے ذلت کی زندگی سے عزت کی موت بہتر ھے )۔

آپ پرچم اسلام کو بلند کر نے کےلئے اپنے اھل بیت خاندان عصمت و طھارت اور اصحاب کے ساتھ میدان میں تشریف لائے اور پرچم اسلام کو بلند کرنے کی کوشش فرمائی ،امت اسلامیہ کی سب سے عظیم نصرت اور فتح دلائی یھاں تک کہ خود امام شھید ھوگئے ،آپ(ع) ارادہ میں سب سے زیادہ قوی تھے آپ(ع) پختہ ارادہ کے مالک تھے اور کسی طرح کے ایسے مصائب اور سختیوں کے سامنے نھیں جھکے جن سے عقلیں مدھوش اورصاحبانِ عقل حیرت زدہ ھوجاتے ھیں ۔