سترھویں رمضان کی رات

یہ بڑی بابرکت رات ہے کہ اس میں لشکر اسلام و فوج کفر میں آمنا سامنا ہوا اور ۷۱رمضان کے دن جنگ بدر واقع ہوئی ، جس میں مسلمانوں کو فتح ونصرت نصیب ہوئی یہ اسلام کی ع ظیم ترین فتح تھی ۔ اس ضمن میں علمائ اعلام کا فرمان ہے کہ ہر مومن اس روز صدقہ دے اور خدا کا شکربجالائے ، اس رات میں غسل کرنا اور نوافل پڑھنا باعث فضیلت ہے۔
مؤلف کہتے ہیں بہت سی روایات میں آیا ہے کہ حضرت رسول اﷲ نے اصحاب سے فرمایا کہ آج کی رات تم میں سے کون ہے جو آج رات کنویں سے پانی لائے؟ اس پر سب خاموش رہے اور کسی نے کوئی جواب نہ دیا۔ تب امیرالمومنین -نے مشکیزہ لیا اور چل دیئے ، وہ نہایت تاریک اور سرد رات تھی اور ٹھنڈی ہوائیں چل رہی تھیں ۔ آپ(ع) کنوئیں پر پہنچے جوبہت تاریک اور گہرا تھا ۔ پھر وہا ں ڈول اوررسی وغیرہ بھی نہ تھی ۔ پس حضرت کنوئیں میں اترے۔ مشکیزہ بھرا اور واپس چلے تو اچانک ہوا کاایک تیز جھونکا آیا ، حضرت رک گئے اور تھوڑی دیر کے بعد چلنے کا ارادہ کیا تو پھر ویسا ہی سخت جھونکا آیا اور حضرت رک گئے۔ پھراٹھے لیکن سخت ہوا کے باعث رک گئے اور یوں ہی رکتے چلتے ہوئے رسول اﷲ کی خدمت میں آپہنچے ۔ آنحضرت (ص) نے فرمایا: یاعلی (ع)! بہت دیر لگا دی عرض کی ہوا بہت تیز اور سرد تھی ۔ اس لیے تین دفعہ رک رک کر چلنا پڑا ۔ آپ(ص) نے پوچھا : یاعلی (ع)! آیا تمہیں معلوم ہے یہ کیا ماجرا تھا؟عرض کیا آپ ہی بتا دیں ۔ فرمایا پہلی ہوا حضرت جبرائیل(ع) کی ایک ہزارفرشتوں کے ساتھ آمد کی تھی کہ ان سب نے آپ کوسلام کیا، دوسری مرتبہ ہزارفرشتوں کے ساتھ میکائیل (ع) آئے اور ان سب نے آپ (ع) کو سلام کیا اور آخر میں ہزار فرشتوں کیساتھ اسرافیل (ع) آئے اور انہوں نے بھی آپ (ع) کو سلام کیا، ہاں تو یہ سب فرشتے کل کی جنگ میں مسلمانوں کی مدد کریں گے۔ 
مؤلف کہتے ہیں کہ ایک بزرگ کا قول ہے کہ امیرالمومنین -کے لیے ایک رات میں تین ہزار منقبتیں ہیں پس ممکن ہے کہ اس قول میں بدر کی رات کے اسی وقعہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہو۔
سید حمیری اپنے اشعار میں امیرالمومنین -کی مدح کرتے ہوئے کہتے ہیں:
ٲُقْسِمُ بِاﷲِ وَآلائِہِ 
وَالْمَرْئُ عَمّا قالَ مَسْؤُولُ
خدا اوراس کی نعمتوں کی قسم 
انسان اپنے قول کا جوابدہ ہے 
إنَّ عَلِیَّ بْنَ ٲَبِی طالِبٍ 
عَلَی التُّقی وَالبِرِّ مَجْبُولُ
بیشک علی(ع) ابن ابی طالب
نیکی وپرہیز گاری پر پیدا کیے گئے
کانَ إذَا الْحَرْبُ مَرَتْھَا الْقَنا 
وَٲَحْجَمَتْ عَنْھَا الْبَہالِیلُ
جب نیزے لہرانے سے جنگ تیز ہوئی 
اور بڑے بڑے بہادررک جاتے
یَمْشِی إلَی الْقرْنِ وَفِی کَفِّہِ 
ٲَبْیَضُ ماضِی الْحَدِّ مَصْقُولُ
علی (ع) مقابل کی طرف بڑھتے ان کے ہاتھ میں
صیقل کی ہوئی تیز تلوار ہوتی 
مَشْیَ الْعَفَرْنا بَیْنَ ٲَشْبالِہِ 
ٲَبْرَزَھُ لِلْقَنَصِ الْغِیلُ
جیسے شیر اپنے بچوں میں چلتا ہے 
تاکہ شکار سے انہیں بچا لے
ذاکَ الَّذِی سَلَّمَ فِی لَیْلَۃٍ 
عَلَیْہِ مِیکالٌ وَجِبْرِیلُ
علی (ع) وہ ہے سلام کیا ایک رات
اس پر میکائیل(ع) وجبرائیل(ع) نے 
مِیکالُ فِی ٲَلْفٍ وَجِبْرِیلُ فِی 
ٲَلْفٍ وَیَتْلُوھُمْ سَرافِیلُ
میکائیل (ع)ایک ہزارفرشتوں میں جبرائیل(ع) 
ایک ہزارفرشتوں میں اسرافیل(ع) بھی
لَیْلَۃَ بَدْرٍ مَدَداً ٲُنْزِلُوا 
کَٲَنَّھُمْ طَیْرٌ ٲَبابِیلُ
جنگ بدر کی شب مدد کے لیے آئے
جیسے ابابیلوں کے جھنڈ ہوں