آٹھویں فصل ماہ صفر کے اعمال

یہ مہینہ اپنی نحوست کے ساتھ مشہور ہے اور نحوست کو دور کرنے میں صدقہ دینے ،دعا کرنے اور خدا سے پناہ طلب کرنے سے بہتر کوئی اور چیز وارد نہیں ہوئی اگر کوئی شخص اس مہینے میں وارد ہونے والی بلاؤں سے محفوظ رہنا چاہے تو جیسا کہ محدث فیض اور دیگر بزرگوں نے فرمایا ہے، وہ اس دعا کو ہر روز دس مرتبہ پڑھتا رہے :
یَا شَدِیدَ الْقُویٰ وَیَا شَدِیدَ الْمِحالِ یَا عَزِیزُ یَا عَزِیزُ یَا عَزِیزُ ذَ لَّتْ بِعَظَمَتِکَ جَمِیعُ
اے زبردست قوتوں والے اے سخت گرفت کرنے والے اے غالب اے غالب اے غالب تیری بڑائی کے آگے تیری ساری 
خَلْقِکَ فَاکْفِنِی شَرَّ خَلْقِکَ، یَا مُحْسِنُ یَا مُجْمِلُ یَا مُنْعِمُ یَا مُفْضِلُ
مخلوق پست ہے پس اپنی مخلوق کے شر سے بچائے رکھ اے احسان والے اے نیکی والے اے نعمت والے اے فضل والے
یَا لاَ إلہَ إلاَّ ٲَنْتَ سُبْحانَکَ إنِّی کُنْتُ مِنَ الظَّالِمِینَ فَاسْتَجَبْنا لَہُ وَنَجَّیْناہُ 
اے کہ نہیں کوئی معبود سوائے تیرے تو پاک تر ہے بے شک میں ظالموں میں سے ہوں پس ہم نے اسکی دعا قبول کی اور اسے نجات 
مِنَ الْغَمِّ وَکَذلِکَ نُنْجِی الْمُؤْمِنِینَ، وَصَلَّی اﷲُ عَلی مُحَمَّدٍ وَآلِہِ الطَّیِّبِینَ الطَّاھِرِینَ 
دے دی اور ہم مومنوں کو اسی طرح نجات دیتے ہیں خدا محمد(ص) اور ان کی آل(ع) پر رحمت نازل کرے جو پاک و پاکیزہ ہیں ۔
سید نے اس مہینے کا چاند دیکھنے کے وقت کی ایک دعا بھی نقل کی ہے :
پہلی صفر کادن
37ھ میں اس دن امیرالمؤمنین- اور معاویہ کے درمیان جنگ صفین لڑی گئی ،ایک قول کے مطابق 61 ھ میں،اس دن امام حسین- کا سر مبارک دمشق پہنچایا گیا جس سے بنی امیہ کو خوشی ہوئی اور انہوں نے عید منائی یہی وجہ ہے کہ اس روز رنج و غم تازہ ہو جاتا ہے ،اس دن عراق کے مومنین کے گھروں میں صف ماتم بچھی ہوتی ہے اور شام میں بنی امیہ اس کو عید قرار دے رہے ہوتے ہیں اس دن یا ایک قول کے مطابق ۱۲۱ھ میں تیسری صفر کے دن امام زین العابدین (ع)کے فرزند زید کو شہید کیا گیا ۔
تیسری صفر کا دن
سید ابن طاؤس ہمارے علمائ کی کتابوں سے نقل کرتے ہیں کہ اس دن دو رکعت نماز پڑھنا مستحب ہے اس کی پہلی رکعت میں سورئہ الحمد کے بعد سورئہ انا فتحنا اور دوسری رکعت میں سورئہ الحمد کے بعد سورئہ توحید پڑھے پھر سو مرتبہ صلوات پڑھے اور سو مرتبہ کہے :
اَللَّھُمَّ الْعَنْ آَلَ اَبِیْ سُفْیَانَ۔
اے اللہ! آل ابو سفیان پر پھٹکار بھیج ۔
اس کے بعد سو مرتبہ استغفار کرے اور اپنی حاجات طلب کرے ۔
ساتویں صفر کا دن
شہید اور کفعمی کے قول کے مطابق ۷ صفر 128ھ ÷ کو مکہ مدینہ کے درمیان ابوائ کے مقام پر حضرت امام موسیٰ کاظم -کی ولادت باسعادت ہوئی ۔
بیسویں صفر کا دن
یہ امام حسین- کے چہلم کا دن ہے، بقول شیخین، امام حسین -کے اہل حرم نے اسی دن شام سے مدینہ کی طرف مراجعت کی، اسی دن جابر بن عبداللہ انصاری حضرت امام حسین- کی زیارت کیلئے کربلا معلی پہنچے اور یہ بزرگ حضرت امام حسین- کے اولین زائر ہیں، آج کے دن حضرت امام حسین- کی زیارت کرنا مستحب ہے، حضرت امام حسن عسکری - سے روایت ہوئی ہے کہ مومن کی پانچ علامتیں ہیں، ﴿۱﴾رات دن میں اکاون رکعت نماز فریضہ و نافلہ ادا کرنا، ﴿۲﴾زیارت اربعین پڑھنا ﴿۳﴾دائیں ہاتھ میں انگوٹھی پہننا، ﴿۴﴾سجدے میں پیشانی خاک پر رکھنا، ﴿۵﴾اور نماز میں بہ آواز بلند بِسْمِ اﷲِ الرَحْمنِ الرَحیمْ پڑھنا، نیز شیخ نے تہذیب او ر مصباح میں اس دن کی مخصوص زیارت حضرت امام جعفر صادق -سے نقل کی ہے جسے ہم انشائ اللہ باب زیارات میں درج کریں گے ۔
اٹھائیسویں صفر کا دن
۱۱ ھ 28 صفر سوموار کے دن رسول اکرم کی وفات ہوئی ،جبکہ آپ کی عمر شریف تریسٹھ 63 سال تھی ۔
چالیس سال کی عمر میں آپ تبلیغ رسالت کیلئے مبعوث ہوئے ،اس کے بعد تیرہ سال تک مکہ معظمہ میں لوگوں کو خدا پرستی کی دعوت دیتے رہے ترپن برس کی عمر میں آپ نے مکہ معظمہ سے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت فرمائی اور پھر ان کے دس سال بعد آپ نے اس دنیائ فانی سے رحلت فرمائی امیرالمؤمنین- نے بنفس نفیس آپ کو غسل و کفن دیا حنوط کیا اور آپ کی نماز جنازہ پڑھی پھر دوسرے لوگوں نے بغیر کسی امام کے گروہ در گروہ آپ کا جنازہ پڑھا، بعد میں امیرالمؤمنین- نے آنحضرت کو اسی حجرے میں دفن کیا، جس میں آپ کی وفات ہوئی تھی ۔
انس ابن مالک سے روایت ہے کہ رسول اللہ کے دفن کے بعد جناب سیدہ = میرے قریب آئیں اور فرمایا اے انس ! تمہارے دلوں نے یہ کس طرح گوارا کیا کہ آنحضرت کے جسد مبارک پر مٹی ڈالی جائے ۔پھر آپ نے روتے ہوئے فرمایا :
یٰا اَبَتَاہُ اَجٰابَ رَبّاً دَعٰاہُ 
یَا اَبَتَاہُ مِنْ رَبِہِ مَا اَدْنٰاہُ
بابا جان نے رب کی آواز پر لبیک کہا 
بابا جان آپ اپنے رب کے کتنے قریب ہیں 
ایک معتبر روایت کے مطابق بی بی = نے آنحضرت کی قبر مبارک کی تھوڑی سی مٹی لے کر آنکھوں سے لگائی اور فرمایا:
مَاذا عَلَی الْمُشْتَمِّ تُرْبَۃَ ٲَحْمَدٍ
ٲَنْ لاَ یَشَمَّ مَدَی الزَّمانِ غَوالِیا
جو احمد مجتبی کی تربت کی خوشبو سونگھے
وہ تا زندگی دوسری خوشبو نہ سونگھے گا 
صُبَّتْ عَلَیَّ مَصائِبٌ لَوْ ٲَنَّھا
صُبَّتْ عَلَی الْاََیّامِ صِرْنَ لَیالِیا
مجھ پر وہ مصیبتیں پڑی ہیں اگر وہ 
دنوں پر آتیں تو وہ کالی راتیں بن جاتے
شیخ یوسف شامی نے درالنظیم میں نقل کیا ہے کہ جناب سیدہ =نے اپنے والد بزرگوار پر یہ مرثیہ پڑھا :
قُلْ لِلْمُغَیِّبِ تَحْتَ ٲَطْباقِ الثَّریٰ
إنْ کُنْتَ تَسْمَعُ صَرْخَتِی وَنِدائِیا
خاک پردوں میں غائب ہونے والے سے کہو
اگر تو میری فریاد اور پکار سن رہا ہے 
صُبَّتْ عَلَیَّ مَصائِبٌ لَوْ ٲَنَّھا
صُبَّتْ عَلَی الْاََیَّامِ صِرْنَ لَیالِیا
مجھ پر وہ مصیبتیں پڑی ہیں کہ اگر وہ 
دنوں پر آتیں تو وہ کالی راتیں بن جاتے
قَدْکُنْتُ ذاتَ حِمیً بِظِلِّ مُحَمَّدٍ
لاَٲَخْشَی مِنْ ضَیْمٍ وَکانَ حِمیً لِیا
میں محمد(ص) کی حمایت کے سائے میں تھی
مجھے کسی کے ظلم کا ڈر نہ تھا ان کی پناہ میں
فَالْیَوْمَ ٲَخْضَعُ لِلذَّلِیلِ وَٲَتَّقِی 
ضَیْمِی وَٲَدْفَعُ ظالِمِی بِرِدائِیا
لیکن آج پست لوگوں کے سامنے حاضر ہوں
ظلم کا خوف ہے اپنی چادر سے ظالم کو ہٹاتی ہوں
فَ إذا بَکَتْ قُمْرِیَّۃٌ فِی لَیْلِھا
شَجَناً عَلی غُصْنٍ بَکَیْتُ صَباحِیا
رات کی تاریکی میں جب قمری شاخ پر روئے 
میں شاخ پر صبح کے وقت روتی ہوں
فَلاَََجْعَلَنَّ الْحُزْنَ بَعْدَکَ مُؤنِسِی 
وَلاَََجْعَلَنَّ الدَّمْعَ فِیکَ وِشاحِیا
بابا آپ کے بعد میں نے غم کو اپنا ہمدم بنا لیا
آپ کے غم میں اشکوں کے ہار پروتی ہوں 
شہید اور کفعمی کے بقول 50ھ میں اٹھائیسویں صفر کو امام حسن- کی شہادت ہوئی جبکہ جعدہ بنت اشعث نے معاویہ کے اشارے پر آپ کو زہر دیا تھا ۔
صفر کا آخری دن 
شیخ طبرسی وابن اثیر کے بقول 203ھ میں اسی دن امام علی رضا -کی شہادت اس زہر سے ہوئی جو آپ کو انگور میں دیا گیا ۔جب کہ آپ کی عمر ۵۵ برس تھی آپ کا روضہ مبارک سناباد نامی بستی میں حمید بن قحطبہ کے مکان میں ہے ،جو طوس کا علاقہ ہے اب وہ مشہد مقدس کے نام سے مشہور ہے جہاں لاکھوں افراد زیارت کو آتے ہیں ،ہارون الرشید عباسی کی قبر بھی وہیں ہے ۔