مقدمہ

یہ سفر کے آداب سے متعلق ہے سفر شروع کرنے سے پہلے بدھ ،جمعرات اور جمعہ کو روزہ رکھے اور ہفتہ ، منگل یا جمعرات کو سفر پر نکلے سوموار اور بدھ کو سفر نہ کرے ۔نیز جمعہ کے دن بھی ظہر سے پہلے سفر پر نہ جائے ۔اس کے علاوہ ہر ماہ ان تاریخوں میں سفر نہ کرے جو درج ذیل اشعار میں ذکر ہیں:

ھفت روزی نحس باشد در مھی 
زاں حذرکن تانیابی ھیچ رنج!
سہ وپنج وسیزدہ باشانزدہ
بیست ویک بیست وچھار بیست وپنج
ہر مہینے کی سات تاریخیں ،تین ،پانچ ،تیرہ،سولہ،اکیس،چوبیس اور پچیس سفر کیلئے نحس ہیں ان میں سفر نہ کریں تاکہ سفر کی وجہ سے کسی مصبیت کا شکار نہ ہوں ۔
اسی طرح ہر مہینے کے آخری دن جن میں چاند ڈوبا رہتا ہے اور جب قمر در عقرب ہوتا ہے ان دنوں میں بھی سفر نہ کریں ۔ان ایام میں سفر کرنا نامناسب اور ممنوع ہے البتہ اگر ان دنوں میں کسی اشد ضرورت کے تحت سفر کرنا پڑے تو سفر کی دعائیں پڑھیں اور صدقہ دے کر سفر کریں تو انشائ اﷲ کوئی پریشانی لاحق نہیں ہوگی ۔
روایت میں ہے کہ امام محمدباقر - کے اصحاب میں سے ایک شخص نے سفر کا قصد کیا اور الوداع کرنے کیلئے آپ کی خدمت میں حاضر ہو ا آپ نے اس سے فرمایا کہ میرے والد ماجد امام زین العابدین- جب اپنی کسی املاک وجائیداد کی طرف جانے کی خاطر سفر کا قصد کرتے تو آسان تر خیر ونیکی کے بدلے میں خدا سے اپنی سلامتی خرید لیتے ،یعنی جتنا ہوسکے صدقہ دے دیتے تھے۔ یہ صدقہ آپ اس وقت دیتے جب اپنا پاؤں رکاب میں رکھ لیتے اور جب سفر سے سلامتی کیساتھ واپس آتے تو اﷲ کا شکر ادا کرتے اور پھر جتنا ممکن ہوتا صدقہ دیتے تھے، وہ شخص آپ کے ہاں سے رخصت ہوا ،لیکن اس نے آپ کے فرمان پر عمل نہ کیا اور وہ راستے میں ہلاک ہوگیا ۔جب امام محمد باقر - کو یہ خبر ملی تو فرمایا کہ اس شخص کو نصیحت کی گئی تھی،اگر وہ اس نصیحت کو مان لیتا تو اس ہلاکت سے بچ جاتا۔

سفر پر جانے سے قبل غسل کرنا بھی ضروری ہے غسل کے بعدپھر اپنے اہل وعیال کو جمع کرکے دو رکعت نماز ادا کرے اور حق تعالیٰ سے اپنی خیریت کی دعا مانگے اور اس کے بعد آیۃالکرسی پڑھے :

اﷲ کی ثنائ وحمد بجا لائے محمد(ص) وآل محمد (ع)پر درود بھیجے اور یہ پڑھے: 
اَللّٰھُمَّ إنِّی ٲَسْتَوْدِعُکَ الْیَوْمَ نَفْسِی وَٲَھْلِی وَمَالِی وَوُلْدِی وَمَنْ کَانَ
اے معبود ! آج کے دن میں اپنی جان تیرے سپرد کرتا ہوں اپنا خاندان اپنا مال ومتاع اپنی اولاد اور جو کوئی مجھ سے
مِنِّی بِسَبِیلٍ الشَّاھِدَ مِنْھُمْ وَالْغَائِبَ ۔ اَللّٰھُمَّ احْفَظْنا بِحِفْظِ الْاِیمانِِ
تعلق رکھتا ہے چاھے حاضر ہے یا غائب کو تیرے سپرد کرتا ہوں اے معبود! ہماری حفاظت فرما کر ہمارا ایمان اور ہماری جان
وَاحْفَظْ عَلَیْنا ۔ اَللّٰھُمَّ اجْعَلْنا فِی رَحْمَتِکَ، وَلاَ تَسْلُبْنا فَضْلَکَ إنَّا إلَیْکَ رَاغِبُونَ ۔
محفوظ رکھ اے معبود! ہمیں اپنے سایۂ رحمت میں رکھ اور اپنا فضل ہم سے دور نہ کر بے شک ہم تیرے ہی مشتاق ہیں 
اَللّٰھُمَّ إنَّا نَعُوذُ بِکَ مِنْ وَعْثَائِ السَّفَرِ، وَکَآبَۃِ الْمُنْقَلَبِ، وَسُوئِ الْمَنْظَرِ فِی الْاََھْلِ
اے معبود! ہم تیری پناہ لیتے ہیں سفر کی مشکلوں سے مایوس ہوکر واپس آنے سے اور اپنے خاندان اپنے مال ومتاع 
وَالْمالِ وَالْوَلَدِ فِی الدُّنْیا وَالْاَخِرَۃِ ۔ اَللّٰھُمَّ إنِّی ٲَ تَوَجَّہُ إلَیْکَ ھذَا التَّوَجُّہَ طَلَباً
اور اپنی اولاد کے بارے میں دنیا وآخرت میں برے انجام سے اے معبود! میں تیری طرف متوجہ ہوا ہوں یہ توجہ تیری خوشنودی کی
لِمَرْضاتِکَ وَتَقَرُّباً إلَیْکَ ۔ اَللّٰھُمَّ فَبَلِّغْنِی مَا ٲُؤَمِّلُہُ وَٲَرْجُوہُ فِیکَ وَفِی ٲَوْلِیائِکَ
طلب اور تیرا تقرب حاصل کرنے کیلئے ہے اے معبود!پس مجھے عطا کر وہ جس کی تجھ سے اور تیرے اولیائ سے آرزو اور امید رکھتا 
یَا ٲَرْحَمَ الرَّاحِمِینَ ۔
ہوں اے سب سے زیادہ رحم کرنے والے۔
اس کے بعد اپنے اہل وعیال کو وداع کرے اور اپنے مکان کے دروازے پر کھڑے ہوکر تسبیح فاطمہ زہرا (ع) پڑھے ،پھر سامنے دائیں اور بائیں طرف منہ کر کے سورہ الحمد پڑھے اور اسی طرح آیۃ الکرسی بھی تینوں طرف منہ کر کے ایک ایک مرتبہ پڑھے اور پھر یہ دعا پڑھے :
اَللّٰھُمَّ إلَیْکَ وَجَّھْتُ وَجْھِی، وَعَلَیْکَ خَلَّفْتُ ٲَھْلِی وَمَالِی وَمَا
اے معبود ! میں نے اپنا رخ تیری طرف کیا ہے اور تجھ پر چھوڑے جاتا ہوں اپنا خاندان اپنا مال اور جو کچھ تو نے
خَوَّلْتَنِی وَقَدْ وَثِقْتُ بِکَ فَلاَ تُخَیِّبْنِی، یَا مَنْ لاَ یُخَیِّبُ مَنْ ٲَرادَہُ، وَلاَ
مجھے دے رکھا ہے میں تجھ پر بھروسہ کرتا ہوں پس مجھے نا امید نہ کر اے وہ جس کا قصد کرنے والا نا امید نہیں ہوتا اور جس کی
یُضَیِّعُ مَنْ حَفِظَہُ ۔ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ وَآلِہِ وَاحْفَظْنِی فِیما غِبْتُ
وہ نگہبانی کرے وہ بربادنہیں ہوتا اے معبود! حضرت محمد(ص) اور ان کی آل (ع)پر رحمت نازل فرما اور جن چیزوں کے پاس میں حاضر نہیں
عَنْہُ وَلاَ تَکِلْنِی إلی نَفْسِی یَا ٲَرْحَمَ الرَّاحِمِینَ۔
ان کی نگہداری کر اور مجھے میری خواہش کے سپرد نہ کر اے سب سے زیادہ رحم کرنے والے۔
پھر گیارہ مرتبہ سورہ توحید پڑھے ،ایک مرتبہ سورہ قدر ،آیۃ الکرسی ،سورہ ناس اور سورہ فلق پڑھ کر اپنے ہاتھوں کو بدن پر پھیرے اور جس قدر ہوسکے صدقہ دے اور یہ پڑھے :
اَللّٰھُمَّ إنِّی اشْتَرَیْتُ بِھذِہِ الصَّدَقَۃِ سَلاَمَتِی وَسَلامَۃَ سَفَرِی وَمَا مَعِی۔ اَللّٰھُمَّ
اے معبود! میں اس صدقہ کے بدلے حاصل کرنا چاہتا ہوں اپنی سلامتی ،سفر میں خیریت اور اپنے متاع کی حفاظت اے معبود ! 
احْفَظْنِی وَاحْفَظْ مَا مَعِیَ، وَسَلِّمْنِی وَسَلِّمْ مَا مَعِیَ، وَبَلِّغْنِی وَبَلِّغْ مَا مَعِیَ بِبَلاغِکَ 
میری حفاظت فرما اور میرے مال کی نگہداری کر مجھے اور جو میرے پاس ہے اسے سالم رکھ اور مجھے اور جو میرے ساتھ ہے اس کو خیر 
الْحَسَنِ الْجَمِیلِ۔
وخوبی سے منزل پر پہنچا دے ۔
سفر کے دوران تلخ بادام کی لکڑی کا عصا بھی اپنے پاس رکھے ۔کیونکہ روایت ہے کہ جو شخص سفر پر جائے اور تلخ بادام کا عصا اپنے پاس رکھے اور یہ پڑھے: وَلَمَّا تَوَجَّہَ تِلْقَآئَ مَدْیَنَ... تا وَاﷲُعَلیٰ مَا نَقُولُ وَکِیْلٌ۔
یہ سورہ قصص کی آیت ہے اور اس کے پڑھنے سے خدا اس کو ہر درندے ،چور اور ہر زہریلے حیوان سے محفوظ رکھے گا یہاں تک کہ وہ اپنے گھر واپس پہنچ جائے نیز ستتر﴿۷۷﴾ فرشتے اس کے ہمراہ رہیں گے اور جب تک وہ شخص واپس آکر اپنا عصا ہاتھ سے رکھ نہ دے گا وہ اس کیلئے استغفار کرتے رہیں گے ۔سنت ہے کہ عمامہ باندھ کر روانہ ہو اور اس میں تحت الحنک بھی لگائے رکھے تاکہ کوئی آسیب نہ پہنچے اسے کوئی چور نہ لوٹے ،دریا میں غرق نہ ہو اور آگ میں جل کے نہ مرے نیز کربلا معلّیٰ کی تھوڑی سی خاک شفا بھی اپنے پاس رکھے اور یہ خاک اٹھاتے وقت یہ دعاپڑھے:
اَللّٰھُمَّ ھذِہِ طِینَۃُ قَبْرِ الْحُسَیْنِ ں وَلِیِّکَ وَابْنِ وَلِیِّکَ اتَّخَذْتُھا حِرْزاً لِمَا
اے معبود! یہ تیرے ولی اور تیرے ولی کے فرزند حسین - کے مزار کی خاک ہے کہ جو میں نے اپنی پناہ کیلئے اٹھائی اس چیز سے جس 
ٲَخافُ وَمَا لاَ ٲَخافُ۔
سے ڈرتا ہوں اور جس سے نہیں ڈرتا ۔
سفر میں عقیق وفیروزہ کی انگوٹھی پہنے اور خصوصاً زرد عقیق کی انگوٹھی کہ جس پر ایک طرف یہ نقش ہو :
مَاشَآئَ اﷲُ لاَقَوَّۃَ اِلاَّبِاﷲِ اَسْتَغْفِرُاﷲَ ۔
وہی ہوگا جو خدا چاہے نہیں کوئی قوت سوائے اﷲ کے میں اﷲ سے بخشش مانگتا ہوں ۔
اس انگوٹھی کی دوسری طرف محمد(ص) و علی (ع) ہر دو اسمائ مبارکہ نقش کیے گئے ہوں ۔سید ابن طاؤس نے امان الاخطار میں ابو محمد قاسم بن علائ سے اور انہوں نے امام علی نقی -کے خادم صافی سے روایت کی ہے کہ میں نے امام علی نقی -سے ان کے جد طاہر امام علی رضا- کی زیارت کو جانے کی اجازت مانگی تو آپ نے فرمایا کہ اپنے پاس زرد عقیق کی انگوٹھی رکھو کہ جس کی ایک طرف مَاشَآئَ اﷲُ لاَقَوَّۃَ اِلاَّبِاﷲِ اَسْتَغْفِرُاﷲَ اور دوسری طرف محمد (ص) و علی (ع) کے اسمائ گرامی نقش ہوں ۔اگر تم یہ انگوٹھی اپنے ساتھ رکھو گے تو چوروں ،ڈاکوؤں کے شر سے محفوظ رہوگے اور یہ انگوٹھی تمہاری جان کی سلامتی اور تمہارے دین کی محافظ رہے گی، وہ خادم کہتا ہے کہ حضرت(ع) کے ہاں سے آکر جب میں نے ویسی ہی انگوٹھی مہّیا کر لی تو پھر وداع کرنے کیلئے حضرت (ع)کی خدمت میں گیا ۔آپ سے وداع کرکے جب چل پڑا تو میرے بہت دور نکل جانے کے بعد حضرت (ع)نے مجھے واپس بلوایا ،میں حاضر خدمت ہوا تو آپ نے فرمایا اے صافی : فیروزہ کی انگوٹھی بھی لے جاؤ کہ طوس اور نیشاپور کے درمیان تمہیں ایک شیر سے سابقہ پڑے گا جو تمہیں اور تمہارے قافلے کو آگے نہ جانے دے گا ۔تب آگے بڑھ کر تم اس شیر کویہ انگوٹھی دکھاتے ہوئے کہنا کہ میرے مولا فرماتے ہیں کہ تو ہمارے راستے سے ہٹ جا۔ ہاں اس فیروزہ کی ایک طرف اَﷲُ الْمَلِکُ اور دوسری طرف الْمَلِک َﷲِ الْوَاحِدِ الْقَھَّارِ کندہ کرالینا کہ اَﷲُ الْمَلِکُ امیر المؤمنین- کی انگوٹھی کا نقش تھا، جب آپ کو ظاہری خلافت ملی تو آپ نے اپنی انگوٹھی پر اَلْمَلِک َﷲِ الْوَاحِدِ الْقَھَّارِکندہ کرالیا ۔آپ کی انگوٹھی فیروزہ کی تھی ۔یہ نگینہ درندوں سے امان کا باعث ہوتا ہے اور جنگ میںدشمنوں پر فتح و کامیابی کا موجب بنتا ہے ،صافی کہتا ہے کہ میں اس سفر پر چلاگیا اور خدا کی قسم جیسے میرے مولا نے فرمایاتھا وہ شیر اسی مقام پر ہمارے آگے آیااورمیں نے اپنے آقا کے فرمان پر عمل کیا تو وہ شیر پلٹ گیا۔ جب میں زیارت کرکے واپس آیا تو میں نے یہ واقعہ حضرت (ع) کی خدمت میں عرض کیا ،آپ نے فرمایا ایک بات رہ گئی جو تم نے نہیں بتائی ۔اگر تم چاہو تو وہ بات بتا دوں ؟ میں نے عرض کی کہ شاید وہ بات میں بھول گیا ہوں !آپ نے فرمایا کہ طوس میں جب تم رات کو قبر امام (ع)کے قریب سو رہے تھے تو جنات کا ایک گروہ امام علی رضا - کی زیارت کو وہاں آیا ہواتھا ،انہوں نے تمہارے ہاتھ میں اس انگوٹھی پر وہ نقش دیکھا تو انگوٹھی اتار کرلے گئے،اسے پانی میں ڈال کر وہ پانی اپنے ایک بیمار کو پلایا تو وہ تندرست ہوگیا۔ وہ انگوٹھی لا کر انہوں نے تیرے بائیں ہاتھ میں پہنا دی جب کہ سوتے وقت وہ تمہارے دائیں ہاتھ میں تھی اس سے تمہیں تعجب ہوا اور تمہاری سمجھ میں کچھ نہ آیا ۔نیز تم نے اپنے سرہانے ایک یاقوت پڑا پایا اور اسے اٹھالیا جو، اب بھی تمہارے پاس ہے،یہ یاقوت وہ جنات تمہارے لئے بطور ہدیہ لائے تھے ،تم اسے بازار لے جاؤ تو اس کو اسی ﴿80﴾ اشرفی میں بیچ سکتے ہو ۔وہ خادم بیان کرتا ہے کہ میں نے وہ یاقوت بازار میں اسی ﴿80﴾اشرفی میں ہی فروخت کیاجیسا کہ میرے مولا (ع)نے فرمایا تھا ۔امام جعفر صادق - کاارشاد ہے کہ جو شخص سفرمیں ہر رات آیۃ الکرسی پڑھے تو وہ خود اور اس کا مال ومتاع محفوظ رہیں گے نیز یہ دعا بھی پڑھیں :

اَللَّھُمَّ اجْعَلْ مَسِیْرِی عَبْراً وَصُمْتِیْ تَفَکُّراً وَکَلَامِیْ ذِکْراً۔
اے معبود !میری رفتار کو عبرت ،میری خاموشی کو غور و فکر اور میرے کلام کو ذکر قرار دے ۔
امام زین العابدین- سے منقول ہے کہ جب میں ذیل کے دعائیہ کلمات پڑھ لیتا ہوں تو پھر میں کوئی پروا نہیں کرتا خواہ مجھے ضرر پہنچانے کے لئے تمام جن و انس بھی جمع ہو جائیں۔
بِسْمِ اﷲِ، وَبِاﷲِ، وَمِنَ اﷲِ، وَ إلَی اﷲِ، وَفِی سَبِیلِ اﷲِ۔ اَللّٰھُمَّ إلَیْکَ ٲَسْلَمْتُ
خدا کے نام سے خدا کی ذات سے خدا کے اذن سے اور خدا کی راہ میں اے معبود ! میں نے اپنی جان تجھے 
نَفْسِی، وَ إلَیْکَ وَجَّھْتُ وَجْھِی، وَ إلَیْکَ فَوَّضْتُ ٲَمْرِی، فَاحْفَظْنِی بِحِفْظِ الْاِیمانِ 
سونپ دی اپنا رخ تیری جانب کرلیا اور اپنا معاملہ تیرے سپرد کر دیا تو مجھے ایمان کی حفاظت کے ساتھ محفوظ کر 
مِنْ بَیْنِ یَدَیَّ، وَمِنْ خَلْفِی، وَعَنْ یَمِینِی، وَعَنْ شِمالِی، وَمِنْ فَوْقِی، وَمِنْ تَحْتِی 
میرے آگے سے میرے پیچھے سے میرے دائیں سے میرے بائیں سے میرے اوپر سے میرے نیچے سے 
وَادْفَعْ عَنِّی بِحَوْلِکَ وَقُوَّتِکَ فَ إنَّہُ لاَ حَوْلَ وَلاَ قُوَّۃَ إلاَّ بِاﷲِ الْعَلِیِّ الْعَظِیمِ۔
اور اپنی بخشش و قوت سے میرا دفاع کرتا رہ کیونکہ نہیں کوئی طاقت و قوت مگر وہ جو بلند تر بزرگ تر خدا سے ہے ۔
مؤلف کہتے ہیں کہ سفر کے آداب کے بارے میں بہت سی دعائیں وارد ہوئی ہیں مگر یہاں ہم ان میں سے چند ایک کے ذکر پر اکتفا کریں گے ۔
﴿۱﴾ہر شخص کے لئے ضروری ہے کہ جب سوار ہونے لگے توبسم اللہ کا پڑھنا ہر گز ترک نہ کرے ۔
﴿۲﴾اپنے کھانے پینے کی چیزوں اور نقدی کی حفاظت کرے اور ان کو کسی محفوظ جگہ پر رکھے ،اس بارے میں روایت ہوئی ہے کہ مسافر کی سمجھ بوجھ کا معیار یہی ہے کہ وہ اپنی خوراک اور سفر خرچ کو سنبھا ل کر رکھے ۔
﴿۳﴾سفر کے دوران اپنے ساتھیوں کی مدد اور خدمت کرنے میں بے اعتنائی نہ کرے تاکہ حق تعالیٰ اسکی تہتر﴿۳۷﴾پریشانیاں دور کردے، دنیا میں اسکو فکر و اندیشے سے بچائے رکھے اور قیامت میں فزع اکبر ﴿بہت بڑے غم واندوہ﴾سے محفوظ فرمائے روایت میں آیا ہے کہ امام زین العابدین- ایسے لوگوں کے ہمراہ سفر فرماتے تھے جو آپ کو پہچانتے نہ ہوں تا کہ راستہ میں حضرت (ع)ان کی اعانت کر پائیں ۔کیونکہ جب آپ جان پہچان والے لوگوں کے ہمراہ سفر فرماتے تو وہ آپ کو کام میںہاتھ نہیں بٹانے دیتے تھے ۔ حضرت رسول (ص)کا طریقہ یہ تھا کہ جب اپنے اصحاب کے ہمراہ سفر کرتے اوراگر آپ کوئی گوسفند ذبح کرنے لگتے تو ایک صحابی کہتا کہ اسے میں ذبح کروں گا دوسرا کہتا کہ اس کی کھال میں اتاروں گا اور تیسرا یہ کہتا کہ اس کا پکانا میرے ذمے ہے اور آنحضرت(ص) فرماتے کہ اس کو پکانے کے لئے لکڑیاں لانا میرا کام ہے۔ اس پر اصحاب عرض کرتے کہ حضور(ص) یہ سارے کام ہم خود کریں گے ۔ آپ یہ زحمت نہ فرمائیں ،آنحضرت(ص) فرماتے کہ میں جانتا ہوں تم یہ کام انجام دے لو گے لیکن میں نہیں چاہتا کہ تم سے الگ رہوں کیونکہ خدا اس بات کو پسند نہیں فرماتا کہ اس کا کوئی بندہ خود کو دوسروں سے افضل سمجھے۔ واضح رہے کہ سفر میں اپنے ساتھیوں کے لئے سب سے بڑا بوجھ وہ شخص ہے جو صحیح و سالم ہوتے ہوئے بھی اپنے حصے کا کام کرنے میں سستی برتے اوراس انتظار میں رہے کہ اس کاکام دوسرے لوگ انجام دیں ۔
﴿۴﴾ایسے لوگوں کے ساتھ سفر کرے جو خرچ کرنے میں اس کے برابر ہوں۔
﴿۵﴾کسی جگہ کا پانی اس وقت تک نہ پئے جب تک اس میں پچھلی منزل کا پانی نہ ملا لے ،مسافر کے لئے ضروری ہے کہ جس جگہ وہ پلا بڑھا ہو وہاں کی مٹی اپنے پاس رکھے اورجب کسی جگہ کا پانی پینے لگے تو وہ مٹی اس پانی میں ڈال کر خوب ہلائے پھر اس کو رکھ دے یہاں تک کہ مٹی بیٹھ جائے اور پانی صاف ہوجائے تب اس کو پئے :
﴿۶﴾اپنے اخلاق و عادات کو سنوارے اور نرمی و ملائمت سے کام لے ۔اس بارے میں کچھ اور باتوں کا ذکر انشائ اللہ امام حسین- کی زیارت کے ذیل میں آئے گا ۔
﴿۷﴾سفر میں اپنا خرچ اپنے ہمراہ رکھے کیونکہ انسان کے لئے یہ عزت و شرافت کی بات ہے کہ دوران سفر بہترین نان و نفقہ اپنے ساتھ رکھے اور خاص کر مکہ معظمہ کے سفر میں اس کا بہت دھیان رکھے البتہ امام حسین- کی زیارت کے سفر میں لذیز غذائیں مثلا حلوہ اور بریانی وغیرہ کھانا چنداں مناسب نہیں ہے ۔ جیسا کہ آنحضرت(ص) کی زیارت میں اس کا ذکر آئے گا ابن اعثم نے اسی مفہوم کو ان اشعار میں ادا کیا ہے ۔


مِنْ شَرَفِ الْاِنْسانِ فِی الْاََسْفارِ
تَطْیِیبُہُ الزَّادَ مَعَ الْاِکْثارِ
سفر کے دوران انسان کی عزت اس میں ہے 
کہ اس کے پاس اچھا اور زیادہ سامان سفر ہو

وَلْیُحْسِنِ الْاِنْسانُ فِی حالِ السَّفَرِ
ٲَخْلاقَۃُ زِیادَۃً عَلَی الْحَضَرِ
حالت سفر میں انسان کے لئے بہتر ہے کہ
وہ حضر کی نسبت زیادہ بلند اخلاق ہو

وَلْیَدْعُ عِنْدَ الْوَضْعِ لِلْخِوانِ 
مَنْ کانَ حاضِراً مِنَ الْاِخْوانِ
جب دستر خوان پر کھانا چنا جائے تو
جو مرد و زن وہاں ہوں ان کو وہاں بلائے 

وَلْیُکْثِرِ الْمَزْحَ مَعَ الصَّحْبِ إذا
لَمْ یُسْخِطِ اﷲَ وَلَمْ یَجْلِبْ ٲَذیٰ
اپنے ہمراہیوں کیساتھ مزاحیہ گفتگو کرے 
اس میں کسی کو ستانے اور خدا کی ناراضیگی کا پہلو نہ ہو

مَنْ جائَ بَلْدَۃً فَذا ضَیْفٌ عَلیٰ
إخْوانِہِ فِیھا إلی ٲَنْ یَرْحَلا
جوکسی شہرمیں آئے وہ مہمان ہوتا ہے 
وہاں رہنے والے بھائیوں کا جب تک چلا نہ جائے 

یُبَرُّ لَیْلَتَیْنِ ثُمَّ لیَٲْکُلِ
مِنْ ٲَکْلِ ٲَھْلِ الْبَیْتِ فِی الْمُسْتَقْبِلِ
دو راتوں کی خاطر تواضع مہمان کا حق ہے
پھر گھر والوں کے ساتھ عام کھانا کھائے 

﴿۸﴾ سفر کے دوران جس کی رعایت کرنا بہت ضروری ہے کہ مسافر اپنی فریضہ نمازکو حدود وشرائط کے ساتھ اول وقت میں بجا لائے ۔کیونکہ دیکھنے میں آیا ہے کہ حاجی و زائر حضرات راستے میں نماز نہیں پڑھتے یا شرائط کا دھیان نہیں رکھتے اور گاڑی وموٹر وغیرہ پر تیمم کر کے مشکوک کپڑوں میں نماز پڑھ لیتے ہیں ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کو مسائل کا علم نہیں ہوتا ،یا نماز ادا کرنے میںبے اعتنائی سے کام لیتے ہیں ۔ حالانکہ امام جعفر صادق - کا ارشاد ہے کہ فریضہ نماز بیس حج سے بہتر ہے اور ایک حج سونے سے بھرے ہوئے مکان کو صدقے میں دے دینے سے بہتر ہے ۔ سفر میں نماز پڑھنا چاہیئے اور نماز قصر کے بعد کی تسبیح کو تیس مرتبہ پڑھنا ترک نہ کریں ۔کیونکہ اس کے پڑھنے کی بہت زیادہ تاکید بیان ہوئی ہے ۔
سُبْحَانَ اﷲِ وَالْحَمْدُ ﷲِ وَلَا اِلَہَ اِلاَّ اﷲُ وَاﷲُ اَکْبَرُ
اﷲ پاک تر ہے حمد اﷲ ہی کے لیے ہے اور اﷲ کے سوا کوئی معبود نہیں اور اﷲ بزرگتر ہے ۔