پہلی فصل زیارات ائمہ کے آداب

آداب زیارت بہت زیادہ ہیں مگر یہاں ہم ان میں سے چند ایک کا ذکر کریں گے :

﴿۱﴾ زیارت کے سفر پر روانگی سے پہلے غسل کرے۔
﴿۲﴾ راستے میں بے ہودہ باتوں ،لڑائی جھگڑے اور گالی گلوچ سے پرہیز کرے۔
﴿۳﴾ ہر امام کی زیارت پڑھنے سے پیشتر غسل کرے اور ان سے وارد ہونے والی دعاؤں کو پڑھے جن کا ذکر زیارت وارث سے قبل آئے گا۔
﴿۴﴾ حدث اکبر واصغر سے پاک رہے ۔یعنی وضو وغسل کے ساتھ رہے۔
﴿۵﴾ پاک وصاف اورنیا لباس پہنے ۔
﴿۶﴾ جب کسی روضہ مبارک پر جائے تو چھوٹے چھوٹے قدم اٹھائے ،اطمینان کے ساتھ خضوع وخشوع کی حالت میں ادھر ادھر دیکھے بغیر آگے بڑھے ۔
﴿۷﴾ امام حسین- کی زیارت کے علاوہ دیگر زیارتوں کے لیے خوشبو لگا کر جائے ۔
﴿۸﴾ حرم مطہر کی طرف جاتے ہوئے ذکر الہٰی تکبیر وتحمید اور تسبیح وتہلیل اور محمد(ص) وآل محمد (ع)پر درود وصلوات سے زبان کو معطر کرے۔
﴿۹﴾ حرم مبارک کے دروازے پر کھڑے ہو کر اذن دخول پڑھے اور کوشش کرے کہ اس پر رقت قلب اور خشوع وخضوع طاری ہوجائے خدا کے جلال وعظمت کا تصور کرے اور جس بزرگ ہستی کے در پر حاضر ہوا ہے اسکی بلند وبالا شان کو نظر میں لائے اور یہ باور کرے کہ وہ بزرگوار اس کو دیکھتے ہیں اسکا کلام سنتے ہیں اور اس کو سلام کا جواب دیتے ہیںاذن دخول جو اس وقت زائر پڑھتا ہے اس سب کی گواہی دیتا ہے اور ان کی محبت ونوازش سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے وہ اپنے شیعوں سے کلام کرتے ہیں زائر کو اپنے حالات پر غور کرنا چاہیے ،اپنی خرابیوں اور نافرمانیوں کو یاد کرنا چاہیے جو ان مقدس ہستیوں کے احکام کے بارے میں اس نے کی ہیں، ان اذیتوں کو نگاہ میں لائے جو اس نے ان ہستیوں اور انکے شیعوں کو پہنچائی ہیں کیونکہ ان کے محبوں کو تکلیف پہنچانا اصل میں خود ان کو تکلیف دینا ہے اگر انسان ان چیزوں پر توجہ کرے تو اسکے قدم آگے بڑھنے کی بجائے رک جائیں گے اس کا دل خوف زدہ وآنکھیں روئیںگی اور یہی آداب کی حقیقی روح اور جان ہے ۔
نیز بہتر ہے یہ اشعار پڑھے جائے:
قالُوا غَداً نَٲْتِی دِیارَ الْحِمیٰ
وَیَنْزِلُ الرَّکْبُ بِمَغْناھُمُ
کہنے لگے کل ان کے حرم سرا میں پہنچیں گے 
اور قافلہ خیریت سے اپنی منزل پر اترے گا

فَکُلُّ مَنْ کانَ مُطِیعاً لَھُمْ
ٲَصْبَحَ مَسْرُوراً بِلُقْیاھُمُ
جو بھی ان کا مطیع وفرمانبردار ہوگا 
ان کے حضور پہنچ کر راضی وخوش ہوگا

قُلْتُ فَلِی ذَنْبٌ فَما حِیلَتِی
بِٲَیِّ وُجْہٍ ٲَتَلَقَّاھُمُ
میں نے کہا میں گنہگار ہوں میرا کیا چارہ ہوگا 
میں کس منہ سے ان کے حضور حاضر ہوں گا

قالُوا ٲَلیْسَ العَفْوُ مِنْ شَٲْنِھِمْ
لاَ سِیَّما عَمَّنْ تَرَجَّاھُمُ
لوگوں نے کہا کیا معاف کردینا انکی شان نہیں
خاص کر ان کیلئے جو معافی کی امید رکھیں

فَجِیْتُھُمْ ٲَسْعیٰ إلی بابِھِمْ
ٲَرْجُوھُمُ طَوْراً وَٲَخْشاھُمُ
پس میں انکے دروازے کی طرف دوڑا آرہا تھا
کبھی امید بندھ جاتی کبھی خوف آنے لگتا تھا

اس مقام پر سخاوی کے یہ اشعار نقل کر دینا بہت مناسب ہوگا ۔
ھَا عَبْدُکَ وَاقفٌ ذَلِیْلٌ
بِالْبَابِ یَمُدُّ کَفَّ سَائِلْ
یہ ہے آپ کا پست تر غلام جو حاضر ہے
آپ کے در پر دست سوال پھیلائے ہوئے

قَدْ عَزَّ عَلیَّ سُوئُ حَالِی
ما یَفْعَلُ مَا فَعَلْتُ عاقِلْ
مجھ پر بد حالی کا بہت زیادہ غلبہ ہے 
جو کچھ میں نے کیا کوئی عقلمند وہ کام نہیں کرتا

یَا ٲَکْرَمَ مَنْ رَجاہُ رَاجٍ 
عَنْ بَابِکَ لاَ یُرَدُّ سَائِلْ
اے وہ سخی جس سے امیدوار امید رکھتا ہے
آپ کے در سے سوالی کو ہٹایا نہیں جاتا


علامہ مجلسی نے بحار الانوار میں عیون المعجزات سے ایک روایت نقل کی ہے ۔ ابراہیم جمال جو شیعیان علی - میں سے تھے انہوں نے ہارون الرشید عباسی کے وزیر علی بن یقطین سے ملاقات کرنا چاہی چونکہ ابراہیم ایک ساربان تھے اور ان کی ظاہری حالت ایسی نہ تھی کہ ایک وزیر کے دربار میں جائیں لہٰذا ملازمین نے ان کو علی بن یقطین کے پاس نہ جانے دیا ۔ ادھر اسی سال علی بن یقطین حج کو گئے اور بعد میں مدینہ منورہ بھی آئے ۔وہاں انہوں نے اپنے آقا ومولا امام موسیٰ کاظم - کی خدمت میں حاضری دینا چاہی تو حضرت (ع) نے اس کوملاقات کی اجازت نہ دی دوسرے روز دروازے پر امام سے اس کی ملاقات ہوگئی ۔علی بن یقطین نے عرض کی کہ مولا مجھ سے کیا خطا ہوئی کہ آپ نے مجھے اپنے حضور آنے کی اجازت نہیں دی؟ آپ(ع) نے فرمایا ، تمہیں ملاقات کی اجازت نہ دینے کی وجہ یہ ہے کہ تم نے اپنے ایک مومن بھائی ابراہیم جمال کو اپنے پاس نہیں آنے دیا تھا ۔پس حق تعالیٰ تمہاری اس سعی وکوشش کو قبول کرنے سے انکار کرتا ہے ۔جب تک کہ ابراہیم ساربان تمہیں معاف نہ کر دے ۔اس پر علی بن یقطین نے عرض کیا کہ مولا میں اس وقت مدینے میں ہوں اور ابراہیم جمال کوفہ میں ہے تو میں اس سے کیسے مل سکتا ہوں ، آپ نے فرمایا کہ آج رات اپنے غلام اور اپنے ساتھیوں کو بتائے بغیر تنہا بقیع میں چلے جانا وہاں تمہیں پالان کسا ہوا ایک اونٹ نظر آئے گا۔تم اس اونٹ پر سوار ہو کر کوفہ چلے جانا ۔علی بن یقطین رات کوتنہا بقیع گئے ۔ اور وہاں ویسا ہی اونٹ دیکھا تو وہ اس پر سوار ہوگئے اور تھوڑی ہی دیر میں کوفہ پہنچ گئے اور انہوں نے ابراہیم جمال کے دروازے پر اونٹ کو بٹھایا اور پھر دروازہ کھٹکھٹایا ،ابراہیم نے پوچھا کون ہے ؟ انہوں نے کہا میں علی بن یقطین ہوں ۔ ابراہیم بولے کہ علی بن یقطین کا میرے دروازے پر کیا کام ؟انہوں نے کہا مجھے تم سے انتہائی اہم کام ہے ۔پھر اسے قسم دی کہ دروازہ کھولے اور اندر آنے دے جب اندر گئے تو کہنے لگے اے ابراہیم ! میرے مولا (ع)نے مجھے بتایا ہے کہ میرا کوئی عمل قبول نہ ہوگا ۔ جب تک ابراہیم جمال تجھ سے راضی نہ ہو جائے ،ابراہیم(ع) نے کہا خدا آپ کو معاف کرے۔ یعنی میں نے آپ کو معاف کردیا ۔لیکن علی بن یقطین نے اس پر بس نہ کی بلکہ اپنا چہرہ خاک پر رکھ دیا اور ابراہیم(ع) کو قسم دے کر کہا کہ تم اپنا پاؤں میرے چہرے پر رکھ کر خوب روند ڈالو ،ابراہیم نے بامر مجبوری ایسا ہی کیا۔ تب علی بن یقطین نے کہا اے خدا تو گواہ رہنا ۔اور علی بن یقطین اسی اونٹ پر سوار ہوئے اور اسی رات مدینہ واپس آپہنچے اور اونٹ کو امام موسیٰ کاظم - کے دروازے پر بٹھایا اسی وقت آپ (ع)نے ان کو اندر آنے کی اجازت دی اور پھر حضرت (ع)نے وہ چیزیں قبول فرمایئں جو علی بن یقطین آپ کی نذر کرنا چاہتے تھے ۔اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ مؤمن بھائیوں کے حقوق کی پاسداری کس قدر لازم اور اہم ہے ۔
﴿10﴾ روضہ مبارک کی چوکھٹ پر بوسہ دے اور شیخ شہید (رح) کا ارشاد ہے کہ زائر اگر چوکھٹ پر خدا کے حضور سجدہ شکر بجا لائے اور یہ نیت کرے کہ میں خداکے لئے سجدہ بجا لا رہا ہوں کیونکہ اس نے اسے اس مقدس مقام تک پہنچنے کی توفیق دی ہے تو اس کا یہ عمل صحیح ہے ۔
﴿۱۱﴾حرم میں داخل ہوتے وقت پہلے دایاں پاؤں اندر رکھے اور باہر آتے ہوئے پہلے بایاں پاؤں باہر نکالے ۔ جیسا کہ مسجد کا حکم ہے ۔
﴿12﴾ضریح کے اتنا قریب ہو جائے کہ اس سے لپٹ سکے ،یہ گمان کرنا باطل ہے کہ ضریح سے دور کھڑے ہونے میں پاس ادب ہے کیونکہ اسے بوسہ دینے اور اس کا سہارا لینے کا تذکرہ آیا ہے ۔
﴿13﴾ زیارت پڑھتے وقت پشت بہ قبلہ ہوکر اپنا منہ ضریح کی طرف کیے رہے ،بظاہر یہ ادب صرف معصوم (ع)کے روضہ مبارک کی زیارت کے لیے مخصوص ہے ۔جب زیارت پڑھ چکے تو اپنے چہرے کے دائیں حصے کو ضریح مبارک کے ساتھ مس کرکے گریہ و زاری کرتے ہوئے خدائے تعالیٰ سے دعا مانگے ،پھر بائیں حصے کو مس کرے اور صاحب قبر کا واسط دے کے دعا مانگے کہ حق تعالیٰ قیامت میں اس معصوم (ع)کو اس کاشفیع بنائے ۔ دعا کرنے میں ہمت وحوصلے سے کام لے اور پوری توجہ کے ساتھ خاصی دیر تک مصروف دعا رہے اسکے بعد ضریح مبارک کے سرہانے قبلہ رو ہو کر دعا کرے۔
﴿14﴾ اگر کھڑے ہو کر زیارت پڑھنے میں کوئی عذر ہو جیسے کمر درد ،پاؤں کا درد یا کمزوری لاحق ہو تو بیٹھ کر پڑھے :
﴿15﴾ جب روضہ مقدس کو دیکھے تو زیارت پڑھنے سے پہلے تکبیر یعنی اﷲ اکبر کہے ۔کیونکہ روایت میں ہے کہ جو شخص امام کے حضور تکبیر کہے اور ’’لاَ اِلٰہَ اِلاَّ اﷲُ وَحْدَہ، لاَ شَرِیْکَ لَہ، ‘‘ پڑھے تو اس کیلئے رضوان اکبر لکھا جائے گا۔

﴿16﴾ وہ زیارتیں پڑھے جو ائمہ سے مروی ہیں ،اپنی یا کسی اور کی بنائی ہوئی زیارتیں پڑھنے سے پرہیز کرے کہ جو بے خبر لوگوں نے اصل زیارتوں کی خوشہ چینی کرکے مرتب کیں اور بے خبر لوگوں کو انہی کے پڑھنے میں لگائے رکھتے ہیں ۔

شیخ کلینی(رح) نے عبد الرحیم قصیر سے روایت کی ہے کہ میں امام جعفر صادق - کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ میرے آقا ! میں نے اپنی طرف سے ایک دعا ترتیب دی ہوئی ہے۔ اس پر آپ نے فرمایا کہ مجھے اپنی خود ساختہ دعا سے معاف رکھو۔یعنی یہ بے کار ہے جب تمہیں کوئی حاجت پیش آئے تو رسول اﷲ کے وسیلے سے خدا کی پناہ مانگو اور دو رکعت نماز پڑھ کے آنحضرت کیلئے ہدیہ کر دو۔

﴿17﴾ زیارت پڑھنے کے بعد نماز زیارت ادا کرے کہ جو کم سے کم دو رکعت ہوتی ہے ۔شیخ شہید (رح) نے فرمایا ہے کہ اگر رسول اکرم کی زیارت کرے تو پھر نماز زیارت آنحضرت (ص)کے روضہ مبارک میں بجا لائے اور اگر ائمہ طاہرین میں سے کسی کی زیارت کرے تو پھر نماز زیارت ان کے سرہانے کی طرف ہوکر پڑھے ۔اس دو رکعت نماز کو مسجد میں ادا کرنا بھی جائز ہے علامہ مجلسی (رح) نے فرمایا ہے کہ میرے خیال میں نماز زیارت اور دوسری نمازیں ضریحوں کے بالائے سر ادا کرنا بہتر ہے اور علامہ بحر العلوم نے بھی کتاب درہ میں فرمایا ہے ۔

وَمِنْ حَدِیثِ کَرْبَلا وَالْکَعْبۃِ
لِکَرْبَلاَ بانَ عُلُوُّ الرُّتْبَۃِ
جب بات کربلا وکعبہ کی ہو
تو کربلا کا مرتبہ بلند معلوم ہوتا ہے 

وَغَیْرُھا مِنْ سَائِرِ الْمَشاھِدِ
ٲَمْثالُھا بِالنَّقْلِ ذِی الشَّوَاھِدِ
اور ان کے علاوہ دیگر مشاہد ایسے ہی ہیں 
انکے بارے میں بہت دلائل نقل ہوئے ہیں

وَراعِ فِیھِنَّ اقْتِرابَ الرَّمْسِ
وَآثِرِ الصَّلاَۃَ عِنْدَ الرَّٲْسِ
انکے اندر جا کر تعویذ قبر کے قریب ہونا چاہیے 
اور سرہانے کے نزدیک نماز ادا کریں 

وَصَلِّ خَلْفَ الْقَبْرِ فَالصَّحِیحُ 
کَغَیْرِہِ فِی نَدْبِھا صَرِیحٌ
اور قبر کی پچھلی طرف نماز پڑھے تو صحیح ہے 
اس کے مستحب ہونے میں واضح نص ہے

وَالْفَرْقُ بَیْنَ ھَذِہِ الْقُبُورِ
وَغَیْرِھا کالنُّورِ فَوْقَ الطُّورِ
ان میں اور دوسری قبروں میں ایسا فرق ہے
جیسے کوہ طور اور نور میں فرق تھا

فَالسَّعْیُ لِلصَّلاۃِ عِنْدَھا نُدِبْ
وَقُرْبُھا بَلِ اللُّصُوقُ قَدْ طُلِبْ
ان کے قریب نماز پڑھنے کی کوشش مستحب ہے 
ان کے قریب ہونا بلکہ ان سے لپٹ جانا چاہیے 

﴿18﴾ اگر کسی موقع پر نماز زیارت کی خاص کیفیت کا ذکر نہ ہو تو وہاں نماز زیارت کی دو رکعتوں میں سے پہلی رکعت میں سورہ الحمد کے بعد سورہ یاسین اور دوسری رکعت میں سورہ الحمد کے بعد سورہ رحمن پڑھے اور پھر وہ دعا پڑھے جو زیارت کے بعد پڑھی جاتی ہے یا اپنی دنیا وآخرت کے لیے جو کچھ بھی چاہتا ہو اسکا سوال کرے بہتر یہ ہے کہ عام مؤمنین کے حق میں دعا کرے کہ اسکی قبولیت یقینی ہے۔
﴿19﴾ شیخ شہید(رح) نے فرمایا ہے کہ جب کوئی شخص حرم میں داخل ہو اور وہاں نماز باجماعت پڑھی جا رہی ہو تو پہلے اس میں شریک ہو کر فریضہ نماز بجا لائے اور بعد میں زیارت کرے ۔اسی طرح نماز جماعت میں شرکت کی خاطر زیارت پڑھنے کو بھی ترک کردے اور نماز سے فراغ ہوکر زیارت پڑھے: اگر وہ زیارت پڑھ رہا ہو اور نماز کا وقت داخل ہوجائے تو بھی اسے چھوڑ کر نماز جماعت میں شامل ہو کیونکہ نماز جماعت کے لیے زیارت کو ترک کر دینا مستحب ہے ،حرم کے متولی پر لازم ہے کہ ایسے وقت میں لوگوں کو نماز جماعت میں شمولیت کا حکم دے ۔
﴿20﴾ شیخ شہید(رح) نے ضریح مقدس کے نزدیک تلاوت قرآن کو بھی آداب زیارت میں ذکر فرمایا ہے اور یہ کہ اس تلاوت کو اس روح پاک کے لیے ہدیہ کرے کہ جس کی زیارت کررہا ہے ،اس عمل میں زائر کا نفع اور صاحب مزار کی تعظیم ہے ۔
﴿21﴾ زائر کو نازیبا باتوں اور بیہودہ گفتگو سے بچنا چاہیے کہ یہ چیزیں عام حالات میں بھی نا پسندیدہ، رزق میں مانع اور دل کی سختی کا سبب ہیں خاص طور پر ان پاکیزہ روضوں میںکہ اﷲنے ان بزرگواروں کی عظمت و بلندی سورہ نور میں بیان فرمائی کہ فی بیوت اذن اﷲ ان ترفع ...الخ
﴿۲۲﴾ زیارت پڑھتے ہوئے اپنی آواز بلند نہ کرے ۔جیسا کہ میں نے اسے ہدیہ الزائرین میں ذکر کیا ہے ۔
﴿23﴾جس مقام پر کسی امام- کی زیارت کو گیا ہو ،وہاں سے کسی دوسرے شہر یا اپنے وطن کو جانا چاہے تو روضہ امام پر جا کر ان کو الوداع کہے اور زیارت وداع پڑھے کہ جو نقل ہوئی ہے ۔
﴿24﴾ اپنے گناہوں پر استغفار کرے اور زیارت سے واپس آنے کے بعد اپنے اخلاق واعمال کو سنوارے کہ زیارت سے قبل وبعد کا فرق نمایاں رہے ۔
﴿25﴾ اپنی حیثیت کے مطابق خدام حرم کی مالی خدمت کرے ،لیکن اس کے ساتھ ہی یہ ضروری ہے کہ ان آستانوں کے خدام ،شریف ،نیک ،دینداراور خوش اخلاق ہوں اگر زائروں کی طرف سے کوئی نامناسب بات ہوجائے تو وہ ان پر غصہ وناراضگی کا اظہار نہ کریں،بلکہ ان میں جو غریب ہوں ان کی رہنمائی سے پہلوتہی نہ کریں اور انہیں زیارت کے آداب اور اعمال سے آگاہ کریں ۔ خادموں کو حقیقی معنی میں خادم ہونا چاہیے اور صفائی نگرانی اور زائرین کی حفاظت جیسی لازمی خدمات میں مشغول رہنا چاہیے ۔
﴿26﴾ روضہ مطہر کے قرب میں جو محتاج ومسکین افراد خصوصاً سادات ،علمائ اور طلبائ کہ جن کے دم قدم سے یہ آستانے آباد ہیں ،ان سب پردیسی لوگوں کو اپنی واجب شرعی رقوم میں سے مناسب حصہ دے ۔
﴿27﴾ شیخ شہید (رح) نے فرمایا ہے کہ زیارت کرنے کے بعد وہاں سے روانگی میں جلدی کرے اور دوبارہ یہاں آنے کا اشتیاق دل میں لے کر جائے ،زیارت کرنے میں مرد اور عورتیں ایک دوسرے سے علیحٰدہ رہیں۔ تاہم عورتیں اگر رات کوزیارت کریں تو یہ بہت بہتر ہے نیز انہیں عمدہ لباس پہن کر حرم میں نہیں جانا چاہیے تاکہ وہاں موجود لوگ ان کو پہچان نہ سکیں ،وہ پوشیدہ طور پر حرم سے باہر آئیں کہ کوئی ان پر نظریں نہ جمائے ۔اگرچہ عورتوں کا مردوں کے ساتھ زیارت کرنا ایک جائز امر ہے ،لیکن یہ پسندیدہ طریقہ نہیں ہے ۔
مؤلف کہتے ہیں کہ مذکورہ باتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ موجودہ زمانے میں یہ بد تر طریقہ رواج پاگیا ہے کہ عورتیں بن سنور کر اور نفیس لباس پہن کر زیارت کے لیے گھروں سے نکلتی ہیں اور حرم مقدسہ میں مردوں کے ساتھ مخلوط ہو کر زیارت کرتی ہیں ۔کئی مواقع پر وہ مردوں کے آگے آبیٹھتی ہیں اور انکی عبادت میں خلل پیدا کرتی ہیں جو اﷲ کے راستے سے روکتے ہیں ۔ان عورتوں کا یہ فعل بہت برا اور ناپسندیدہ ہے حقیقیت یہ ہے کہ ان کا اس ڈھب سے زیارت کرنا شرعی لحاظ سے چنداں مناسب نہیں اور نہ ہی یہ کار ثواب کے زمرے میں آتا ہے لہٰذا عورتوں کو اس بارے میں خاص احتیاط کرنا چاہیے کہ اجر کی بجائے زجر اور ثواب کی بجائے عذاب لے کر نہ جائیں۔
امام جعفر صادق - سے منقول ہے کہ امیر المؤمنین- عراق کے لوگوں سے فرماتے تھے اے اہل عراق! مجھے بتایا گیا ہے کہ تمہاری عورتیں سرراہ مردوں سے ملتی اور گفتگو کرتی ہیں آیا ان کی اس روش پر تمہیں شرم نہیں آتی؟ خدا اس شخص پر لعنت کرتا ہے ،جس کو غیرت نہ آتی ہو من لا یحضرہ الفقیہ میں اصبغ بن نباتہ سے روایت کی گئی ہے کہ میں نے امیرالمؤمنین- کو یہ فرماتے سنا کہ قرب قیامت کا زمانہ جو سب زمانوں سے بدتر ہوگا، اس میں عورتیں بے پردہ ،دین سے ناواقف ،فتنہ انگیز ،خواہشوں کی دلدادہ ،لذتوں کی طرف مائل اور حرام چیزوں کو حلال سمجھنے والی ہوں گی ۔پس وہ ہمیشہ جہنم میں رہیں گی ۔
﴿28﴾ جب زائرین کی تعداد زیادہ ہو تو جو لوگ ضریح کے پاس پہنچے ہوئے ہوں انہیں جلد تر زیارت سے فارغ ہوجانا چاہیے ۔تاکہ دوسرے لوگ ضریح مقدس کی زیارت کا ثواب حاصل کرسکیں ۔
البتہ امام حسین- کی زیارت کے ذیل میں کچھ اور آداب بھی بتائے جائیں گے کہ جو زائر کو بجا لانا چاہئیں۔