سید رشتی کا واقعہ

ہمارے استاد محترم نے نجم الثاقب میں ایک واقعہ بیان کیا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس زیارت کو ہمیشہ پابندی کے ساتھ پڑھتے رہنا چاہئیے اور اس میں غفلت نہیں کرنا چاہئیے وہ واقعہ یہ ہے کہ جناب سید احمد بن ہاشم بن سید حسن موسوی رشتی ایک تاجرتھے جو رشت میں رہائش رکھتے تھے سترہ برس قبل وہ زیارت کیلئے نجف اشرف آئے اور عالم ربانی فاضل صمدانی شیخ علی رشتی کے ہمراہ میرے مکان پر بھی تشریف لائے وہ میرے ہاں سے روانہ ہونے لگے تو شیخ علی رشتی نے ان سید کی جلالت و صالحیت کی طرف اشارہ فرمایا اور ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ ان کو ایک عجیب و غریب واقعہ بھی پیش آ چکا ہے تاہم اس کو بیان کرنے کے لیے وقت نہیں تھا لہذا وہ چلے گئے۔ چند دنوں کے بعد جب شیخ مذکور سے میری ملاقات ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ سید موصوف تو چلے گئے ہیں مگر ان کو پیش آیا ہوا واقعہ انہوں نے مجھے سنا دیا تھا۔ اس واقعہ کو سننے کے بعد مجھے افسوس ہوا کہ کیوں یہ واقعہ میں خود ان کی زبانی نہ سن سکا؟ اگرچہ شیخ محترم کے مقام و مرتبہ کودیکھتے ہوئے مجھے پورا یقین تھا کہ انہوں نے اس واقعہ کو نقل کرنے میں کوئی کمی بیشی نہیں کی ہے چنانچہ اس دن سے یہ واقعہ میرے ذہن میں جا گزیں رہا۔ یہاںتک کہ میں اس سال میںماہ جمادی آلاخر میں نجف اشرف سے کاظمین آ گیا وہاں ان سید محترم سے میری ملاقات ہو گئی جو سامرہ کی زیارت سے لوٹے تھے اور ایران جانے کا ارادہ رکھتے تھے تب میں نے وہ سنا ہوا واقعہ پھر ان سے بھی سننے کی خواہش کی تو انہوں نے پورا واقعہ نقل کیا جیسا کہ شیخ مرحوم نے مجھے سنایا تھا اس کا خلاصہ یوں ہے۔

ان سید محترم نے فرمایا کہ میں 1280ھ میںحج بیت اللہ کے قصد سے اپنے شہر رشت سے تبریز آیا اور وہاں کے معروف تاجر حاجی صفر علی تبریزی کے گھر میں قیام کیا وہاں مجھے حج کو جانے والا کوئی قافلہ نہیںمل رہا تھا۔ لہذا میں بہت پریشان خاطر تھا اسی اثنا میںحاجی جبار اصفہانی آ گئے جو سامان لے کر طرابوزن کی طرف جا رہے تھے چنانچہ ان سے سواری کرایہ پر لے کر میںبھی ان کے ساتھ چل پڑا جب ہم پہلی منزل پر اترے تو حاجی صفر علی تبریزی کی ترغیب و تشویق سے تین اور آدمی وہاں سے ہمارے ساتھ آملے ان میں سے ایک تو حاجی ملا باقر تبریزی تھے‘ دوسرے حاجی سید حسین تبریزی کہ جوتا جرتھے اور تیسرے حاجی علی تھے۔ چانچہ ہم چاروں قافلے کے ہمراہ روانہ ہو کرارزنتہ الروم آئے اور وہاں سے طرابوزن کی طرف گامزن ہوئے۔ ان دونوں شہروںکے درمیان کی ایک منزل پر سالار قافلہ حاجی جبارجلودار ہمارے پاس آئے اور کہا کہ آگے کی منزل بہت پر خطر ہے لہذا آج ذرا جلدی تیار ہو جانا تاکہ آپ یہ منزل قافلے کے ہمراہ طے کر لیں‘ اس سے پہلے ہم چاروں رفقائ قافلے کے پیچھے کچھ فاصلے پر چلتے آ رہے تھے۔ حاجی جبار کے کہنے پر ہم آج بہت جلد تیار ہوئے اور طلوع فجر سے تقریباً تین گھنٹے قبل سفر شروع کر دیا‘ ابھی ہم تین ہی میل آگے بڑھے ہونگے کہ بادل گھر آئے اور برف باری بھی ہونے لگی‘ چنانچہ قافلے والوں میں سے ہر ایک نے تیزی سے چلنا شروع کر دیا۔ میں نے ان کے برابر چلنے کی بڑی کوشش کی لیکن میں ایسا نہ کر سکا اور وہ لوگ بہت دور نکل گئے اور میں ان سے بچھڑ گیا۔ میں گھوڑے سے اتر کر سرراہ ایک طرف بیٹھ گیا۔ جب کہ گبھراہٹ اور پریشانی مجھ پر چھائی ہوئی تھی‘ کیونکہ سفر خرچ کی چھ سو تومان کی رقم میرے پاس تھی میں نے سوچا کہ سورج نکلنے تک یہاں بیٹھا رہوں اور پھر پچھلی منزل پر جائوں جہاں سے آج ہم روانہ ہوئے تھے‘ میں چاہتا تھا کہ اس منزل سے چند محافظ ساتھ لے کر قافلے سے جاملوں گا۔ اس دوران میں نے دیکھا کہ سامنے ایک باغ ہے اور اس کا مالی بیلچہ لیے درختوں پر گری ہوئی برف ہٹا رہا ہے تھوڑی دیر کے بعد وہ میرے قریب آ کر کھڑا ہو گیا اور فارسی زبان میں پوچھا کہ تم کون ہو؟ میں نے کہا میرے قافلے والے آگے نکل گئے ہیں اور میں ان سے جدا ہو کر رہ گیا ہوں۔ جبکہ میں ان راستوں سے واقف نہیں ہوں۔ اس بزرگ نے فرمایا کہ اتنے میں نماز تہجد ادا کرو تاکہ تمہیں راستہ معلوم ہو جائے میں نا فلہ شب ادا کرنے لگا اور وہ چلے گئے‘ جب میں نماز شب پڑھ چکا تو وہ دوبارہ میرے پاس آئے اور کہا کہ تم ابھی تک گئے نہیں۔ میں نے عرض کی کہ ابھی تک مجھے راستہ معلوم نہیں ہوا! تب فرمایا کہ زیارت جامعہ پڑھو‘ لیکن مجھے زیارت جامعہ یاد نہ تھی اور کئی مرتبہ زیارت کو آنے کے باوجود وہ اب بھی یاد نہیں ہے‘ لیکن اس وقت میں نے زیارت جامعہ زبانی پڑھنا شروع کر دی‘وہ کچھ دیر بعد پھر میرے پاس آئے اور فرمایا کہ تم ابھی تک گئے نہیں اور اس جگہ بیٹھے ہو؟ اس مرتبہ مجھے بے اختیار رونا آگیا اور عرض کی کہ ابھی تک مجھے راستے کا علم نہیںہوا‘ تب آپ نے فرمایا کہ زیارت عاشورا پڑھو اور مجھے یہ زیارت بھی یاد نہ تھی اور نہ ہی اب یاد ہے۔ تا ہم میں نے یہ زیارت زبانی پڑھنا شروع کر دی اور اس کے ساتھ صلوات، لعنت اور دعائے علقمہ بھی پڑھ ڈالی۔ آپ پھر وہاں آئے اور فرمایا کہ تم ابھی تک گئے نہیں ہو؟ تب میں نے عرض کی کہ میں سورج نکلنے تک یہیں رہوں گا! آپ نے فرمایا میں تمہیں قافلے تک پہنچا آتا ہوں تب آپ خچر پر سوار ہو کر بیلچہ کندھے پر رکھے ہوئے میرے قریب آگئے اور فرمایا میرے پیچھے سوار ہو جائو اور میں آپ کے پیچھے سوار ہو گیا اور اپنے گھوڑے کی لگام ہاتھ میں لے لی‘ میں نے اسے آگے چلانے کی بہت کوشش کی مگر وہ رکا رہا‘ اس پر آپ نے بیلچہ بائیں کندھے پر رکھا اور میرے گھوڑے کی لگام پکڑ کر اسے چلایا تو وہ چلنے لگا چلتے چلتے آپ نے اپنا ہاتھ میری ران پر رکھا اور فرمایا کہ تم نافلہ تہجد کیوں نہیں پڑھتے؟ پھر تین بار فرمایا نافلہ نافلہ نافلہ۔ پھر فرمایا کہ تم زیارت عاشورا کیوں نہیں پڑھتے اور تین بار فرمایا عاشورا‘ عاشورا‘ عاشورا۔ پھر فرمایا کہ زیارت جامعہ کیوں نہیں پڑھتے اور تین بار فرمایا جامعہ جامعہ جامعہ۔ آپ سفر طے کرنے میں خچر کو اس قدر تیز چلارہے تھے کہ تھوڑی ہی دیر میں گردن موڑ کر مجھ سے فرمایا کہ وہ دیکھو تمھارے قافلے والے نہر پر اترے ہوئے ہیں اور نماز فجر کیلئے وضو کر رہے ہیں۔ میں نے آپ کی سواری سے اتر کر اپنے گھوڑے پر سوار ہونا چاہا تو سوار نہ ہو سکا‘ آپ نے اپنی سواری سے اتر کر اپنا بیلچہ برف میں گاڑدیا اور مجھے گھوڑے پر سوار کرادیا۔ اسکے ساتھ ہی اس کا رخ قافلے کی طرف موڑدیا اس وقت میں دل ہی دل میں کہہ رہا تھا کہ یہ بزرگ کون ہیں جو مجھ سے فارسی زبان میں گفتگو کرتے رہے جب کہ اس علاقہ میں ترکی زبان بولنے والوں کے علاوہ کوئی نہیں رہتا اور یہاں اکثر عیسائی لوگ رہائش پذیر ہیں۔ پھر یہ کہ انہوں نے اتنی جلدی قافلے تک پہنچا دیا ہے‘ میں نے انہیں خیالوں میں جو پیچھے مڑ کر دیکھا تو وہاںکوئی بھی نظر نہ آیا اور نہ ان کا کوئی نشان دکھائی دیا‘اسکے بعد میں قافلے والوں سے جا ملا۔