تلقین میت

اور مستحب ہے کہ میت کو شہادتین اور ائمہ طاہرین کے ناموں کی اس وقت تلقین کی جائے، جب اسے قبر میں اتارا جا چکے اور قبر کو بند نہ کیا ہو پس تلقین کرنے والا کہے:یافلاں بن فلاں، یعنی میت کانام اور اس کے باپ کانام لے کر کہے:

اذْکُرِ الْعَہْدَ الَّذِی
اس عہد کو یاد کرو جس پر رہتے ہوئے 
خَرَجْتَ عَلَیْہِ مِنْ دارِ 
اس دنیا سے جارہے ہو 
الدُّنْیا شَہادَۃَ ٲَنْ لاَ 
یہ گواہی کہ نہیں ہے 
إلہَ إلاَّ اﷲُ وَحْدَہُ لاَ 
کوئی معبود مگر اﷲ جو یکتا ہے کوئی 
شَرِیکَ لَہُ، وَٲَنَّ 
اس کا شریک نہیں اور یہ کہ حضرت 
مُحَمَّداً عَبْدُہُ وَرَسُولُہُ 
محمد(ص)(ص) اس کے بندے اور رسول(ص)ہیں .
وَٲَنَّ عَلِیّاً ٲَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ
نیز یہ کہ علی مومنون کے امیر ہیں 
وَالْحَسَنَ وَالْحُسَیْن
اور حسن(ع) اور حسین(ع)
اور بارہویں امام تک ہر ایک کانام لے۔
ٲَئِمَّتُکَ ٲَئِمَّۃُ الْہُدَیٰ 
تیرے امام ہیں جو ہدایت والے 
الْاََبْرَارُ۔
خوش کردار ہیں۔
جب قبر پر اینٹیں چن لے تو پھر قبر پر مٹی ڈالیں اور مستحب ہے کہ جو لوگ وہاں موجود ہوں اور اپنے ہاتھوں کی پشت کے ساتھ اس پر مٹی ڈالیں اور اس حال میں یہ کہیں:
إنَّا لِلّٰہِ وَ إنَّا إلَیْہِ 
یقیناً ہم اﷲ کے ہیں اور اسی کی 
رَاجِعُونَ ہذَا مَا 
طرف لوٹیں گے، یہی وہ چیز ہے 
وَعَدَنَا اﷲُ وَرَسُولُہُ 
جسکا وعدہ ہم سے اﷲ و رسول(ص)نے کیا 
وَصَدَقَ اﷲُ وَرَسُولُہُ 
اور اﷲ اور اسکے رسول(ص)نے سچ فرمایا
اَللّٰہُمَّ زِدْنا إیماناً
اے معبود!ہمارے ایمان و یقین 
وَتَسْلِیما۔
میں اضافہ فرما۔
پس جب میت کو قبر میں اتارنے والا اس سے باہر نکلے تو پائنتی کی طرف سے باہر آئے، پھر قبر کو بند کردے اور اسے زمین سے چار انگشت کے برابر بلند کرے. اس قبر کی مٹی کے علاوہ اس پر دوسری مٹی نہ ڈالے اور بہتر ہے کہ قبر کے سر ہانے کوئی اینٹ رکھ دی جائے یاتختی لگادی جائے۔
اس کے بعد قبر پر پانی چھڑکا جائے اور اس کی ابتدائ قبر کے سرہانے کی طرف سے کی جائے۔ پانی قبر کے چاروں طرف ڈالا جائے اور اس کا اختتام سرہانے کی طرف ہی کیا جائے جہاں سے شروع کیا تھا. اگر کچھ پانی بچ رہے تو اسے قبر کے درمیان گرادیا جائے، پس جب قبر مکمل طور پر بند کی جا چکی ہوتو جو بھی شخص چاہے اس پر اپنا ہاتھ رکھے اور انگلیوں کو پھیلا دے. پھر میت کے لیے اس طرح دعا مانگے:
ًاَللّٰہُمَّ آنِسْ وَحْشَتَہُ
اے معبود! اس کے خوف میں ہمدم 
وَارْحَمْ غُرْبَتَہُ وَٲَسْکِنْ
بن اس کی بے کسی پر رحم کر اس کا ڈر 
رَوْعَتَہُ وَصِلْ وَحْدَتَہُ
دور کردے، اس کی تنہائی کا ساتھی 
وَٲَسْکِنْ إلَیْہِ مِنْ
رہ اور اپنی رحمتوں سے خاص رحمت اسکے
رَحْمَتِکَ رَحْمَۃً
ساتھ کردے کراس کے ذریعے 
یَسْتَغْنِی بِہا عَنْ رَحْمَۃِ
اسے اپنے غیر کی رحمت سے بے 
مَنْ سِواکَ وَاحْشُرْہُ
نیاز کردے اوراس کو ان کے ساتھ 
مَعَ مَنْ کانَ یَتَوَلاَّہُ۔
اٹھانا، جن سے محبت رکھتا تھا۔
پھر جب سارے لوگ اس کی قبر سے واپس چلے جائیں تو جو شخص میت کے امر کا زیادہ حقدار ہے، وہ واپس جانے میں جلدی نہ کرے اور اس پر احسان کرتے ہوئے بلند آواز سے تلقین پڑھے، اگر تقیہ مانع نہ ہو پس کہے:اے فلاں ابن فلاں﴿ میت کا اور اس کے باپ کا نام لے﴾ :
اﷲُ رَبُّکَ وَمُحَمَّدٌ
اﷲ تیرا رب ہے حضرت محمد(ص) 
نَبِیُّکَ وَالْقُرْآنُ
تیرے نبی ہیں اور قرآن تیری 
کِتابُکَ، وَالْکَعْبَۃُ
کتاب ہے، کعبہ تیرا 
قِبْلَتُکَ وَعَلِیٌّ إمامُکَ
قبلہ ہے، حضرت علی تیرے امام ہیں 
وَالْحَسَنُ وَالْحُسَیْنُ
اور حسن(ع) اور حسین(ع) ۔
اور بارہویں امام تک ہر ایک کا نام لے
ٲَئِمَّتُکَ ٲَئِمَّۃُ الْہُدَی 
تیرے امام ہیں، وہ امام ہدایت 
الْاََبْرَارُ۔
والے خوش کردار ہیں ۔
مولف کہتے ہیں: احتضار ﴿جان کنی﴾ کے علاوہ دو اور مقامات ہیں، جہاں میت کو تلقین کرنا مستحب ہے، ایک وہ وقت جب میت کو قبر میں لٹایا جائے اور بہتر یہ ہے کہ دائیں ہاتھ سے اس کے داہنے شانے کو اور بائیں ہاتھ سے اس کے بائیں شانے کو پکڑ کر اسے ہلاتے ہوئے، تلقین پڑھی جائے اور اس کے پڑھنے کا دوسرا وقت وہ ہے، جب میت کو دفن کر چکیں، چنانچہ مستحب ہے کہ میت کا ولی یعنی سب سے قریبی رشتہ دار دوسرے لوگوں کے چلے جانے کے بعد قبر کے سرہانے بیٹھ کر بلند آواز سے تلقین پڑھے اور بہتر ہے کہ دونوں ہاتھوں کی ہتھیلیاں قبر پر رکھے اور اپنا مُنہ قبر کے قریب لے جا کر تلقین پڑھے اگر کسی کو اپنا نائب بنائے تو بھی مناسب ہے۔
روایات میں آیا ہے کہ میت کے لیے اس وقت جو تلقین پڑھی جاتی ہے تو منکر اپنے ہمراہ نکیر سے کہتا ہے کہ آئو واپس چلیں، کیونکہ اسے اس کی حجت کی تلقین کردی گئی ہے. لہذا اب اس سے سوال کرنے کی ضرورت نہیں رہی. چنانچہ وہ سوال نہیں کرتے اور لوٹ جاتے ہیں ۔