حق کے سلسلہ میں استقامت

امام حسین(ع) کی اھم اور نمایاں صفت حق کے سلسلہ میں استقامت و پا ئیداری تھی ،آپ(ع) نے حق کی خاطر اس مشکل راستہ کو طے کیا،باطل کے قلعوں کو مسمار اور ظلم و جور کو نیست و نابود کر دیا ۔

آپ(ع) نے اپنے تمام مفاھیم میں حق کی بنیاد رکھی ،تیربرستے ھوئے میدان کو سر کیا،تاکہ اسلامی وطن میں حق کا بول بالا ھو،سخت دلی کے موج مارنے والے سمندر سے امت کو نجات دی جائے جس کے اطراف میں باطل قواعدو ضوابط معین کئے گئے تھے ،ظلم کا صفایا ھو،سرکشی کے آشیانہ کی فضا میں باطل کے اڈّے، ظلم کے ٹھکانے اور سرکشی کے آشیانے وجود میں آگئے تھے، امام(ع) نے ان سب سے روگردانی کی ھے ۔

امام(ع) نے امت کو باطل خرافات اور گمرا ھی میں غرق ھوتے دیکھا ،آپ(ع) کی زند گی میں کو ئی بھی مفھوم حق کے مفھوم سے زیادہ نمایاں شمار نھیں کیا جاتا تھا ،آپ(ع) حق کا پرچم بلند کر نے کے لئے قربانی اور فدیہ کے میدان میں تشریف لائے ،آپ(ع)نے اپنے اصحاب سے ملاقات کرتے وقت اس نورانی مقصد کا یوں اعلان فرمایا:

”کیا تم نھیں دیکھ رھے ھو کہ نہ حق پر عمل کیا جا رھا ھے اورنہ ھی باطل سے منع کیا جا رھا ھے، جس سے مومن اللہ سے ملاقات کر نے کے لئے راغب ھو۔۔۔“۔

امام حسین(ع) کی شخصیت میں حق کا عنصر مو جود تھا ،اور نبی اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے آپ(ع) کی ذات میں اس کریم صفت کا مشاھدہ فرمایا تھا ، (مو رخین کے بقول )آپ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)ھمیشہ امام(ع) کے گلوئے مبارک کے بوسے لیا کرتے تھے جس سے کلمة اللہ ادا ھوااور وہ حسین جس نے ھمیشہ کلمہ   حق کھا اور زمین پر عدل و حق کے چشمے بھائے ۔