حلم

امام حسین(ع) کی بلند صفت اور آپ(ع) کے نمایاں خصوصیات میں سے ایک صفت حلم و بردباری ھے چنانچہ(راویوں کا  اس بات پر اجماع ھے کہ )برائی کرنے والے کا اس کی برائی سے اور گناہگار کا اس کے گناہ سے موازنہ نھیں کیاجا سکتا ،آپ(ع) سب کے ساتھ نیکی سے پیش آتے ان کو امر بالمعروف کیا کرتے تھے، حلم کے سلسلہ میں آپ(ع) کی شان آپ(ع) کے جد رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) اللہ کے مثل تھی جن کے اخلاق و فضا ئل تمام انسانوں کے لئے تھے،چنانچہ آپ(ع) اس صفت کے ذریعہ مشھور و معروف ھوئے اور آپ(ع) کے بعض اصحاب نے اس صفت کو عروج پر پھنچایا،جو آپ(ع) کے ساتھ برا ئی سے پیش آتا آپ(ع) اس پر صلہ  رحم کرتے اور احسان فر ماتے ۔

مو رخین کا کھنا ھے: آپ(ع) کے بعض مو الی ایسی جنایت کرتے تھے جو تادیب کا سبب ھو تی تھی تو امام(ع) ان کو تا دیب کرنے کا حکم دیتے تھے ،ایک غلام نے آپ(ع) سے عرض کیا :اے میرے مولا و سردار خدا فر ماتا ھے :<والکاظمین الغیظ >امام حسین(ع) نے اپنی فیاضی پر مسکراتے ھوئے فر ما یا :خَلُّواعنہ ،فقد کظمت غیظی ۔۔۔“۔”اس کو آزاد کردو میں نے اپنے غصہ کو پی لیا ھے “۔

غلام نے جلدی سے کھا :<والعافین عن الناس >۔”اور لوگوں کو معاف کرنے والے ھیں“

”قد عفوت عنک “،(میں نے تجھے معاف کردیا )۔

غلام نے مزید احسان کی خو اھش کرتے ھوئے کھا:<واللّٰہُ یُحِبُّ المحسنین>[2]

”اور اللہ احسان کرنے والوں کو دوست رکھتا ھے “

”انت حرٌّلوجہ اللّٰہ ِ۔۔۔“۔”تو خدا کی راہ میں آزاد ھے “

پھر آپ(ع) نے اس کو ایسا انعام و اکرام دیاتا کہ وہ لوگوں سے سوال نہ کر سکے ۔

یہ آپ(ع) کا ایسا خُلق عظیم ھے جو کبھی آپ سے جدا نھیں ھو ا اور آپ ھمیشہ حلم سے پیش آتے رھے۔

**********

[1] سورئہ آل عمران، آیت ۱۳۴۔