صبر

سید الشھدا کی ایک منفر د خاصیت دنیاکے مصائب اور گردش ایام پر صبر کرنا ھے ،آپ(ع) نے صبر کی مٹھاس اپنے بچپن سے چکھی ،اپنے جد اور مادر گرامی کی مصیبتیں برداشت کیں ،اپنے پدر بزرگوار پرآنے والی سخت مصیبتوںکا مشاھدہ کیا،اپنے برادر بزرگوار کے دور میں صبر کا گھونٹ پیا ،ان کے لشکر کے ذریعہ آپ کو رسوا و ذلیل اورآپ(ع) سے غداری کرتے دیکھا یھاں تک کہ آپ(ع) صلح کرنے پر مجبور ھوگئے لیکن آپ اپنے برادر بزرگوار کے تمام آلام و مصائب میں شریک رھے ،یھاں تک کہ معاویہ نے امام حسن(ع)کو زھر ھلاھل دیدیا، آپ(ع) اپنے بھا ئی کا جنازہ اپنے جد کے پھلو میں دفن کرنے کے لئے لے کر چلے تو بنی امیہ نے آپ کا راستہ روکا اور امام حسن(ع) کے جنازہ کو ان کے جد کے پھلو میں دفن نھیں ھونے

دیایہ آپ(ع) کے لئے سب سے بڑی مصیبت تھی ۔

آپ کے لئے سب سے عظیم مصیبت جس پر آپ(ع) نے صبر کیا وہ اسلام کے اصول و قوانین پرعمل نہ کرنا تھانیز آپ کے لئے ایک بڑی مصیبت یہ تھی کہ آپ دیکھ رھے تھے کہ آپ(ع) کے جدبزرگوار کی طرف جھوٹی حدیثیں منسوب کی جا رھی ھیں جن کی بنا پر شریعت ا لٰھی مسخ ھو رھی تھی آپ(ع) نے اس المیہ کا بھی مشاھدہ کیا کہ آپ(ع) کے پدر بزرگوار پر منبروں سے سب و شتم کیاجارھا ھے نیز باغی” زیاد“شیعوں اور آپ(ع) کے چاھنے والوں کو موت کے گھاٹ اتار رھاتھاچنانچہ آپ(ع) نے ان تمام مصائب و آلام پر صبر کیا ۔

جس سب سے سخت مصیبت پر آپ(ع) نے صبر کیا وہ دس محرم الحرام تھی مصیبتیں ختم ھونے کا نام نھیں لے رھی تھیں بلکہ مصیبتیں آپ کا طواف کر رھی تھیں آپ(ع) اپنی اولاد اور اھل بیت(ع)کے روشن و منورستاروں کے سامنے کھڑے تھے ،جب ان کی طرف تلواریں اور نیزے بڑھ رھے تھے تو آپ(ع) ان سے مخاطب ھو کر ان کو صبر اور استقامت کی تلقین کر رھے تھے :”اے میرے اھل بیت(ع) !صبر کرو ،اے میرے چچا کے بیٹوں! صبر کرو اس دن سے زیادہ سخت دن نھیں آئے گا “۔

آپ(ع) نے اپنی حقیقی بھن عقیلہ بنی ھاشم کو دیکھا کہ میرے خطبہ کے بعد ان کا دل رنج و غم سے بیٹھا جارھا ھے تو آپ(ع) جلدی سے ان کے پاس آئے اور جو اللہ نے آپ(ع) کی قسمت میں لکھ دیا تھا اس پر ھمیشہ صبرو رضا سے پیش آنے کا حکم دیا ۔

سب سے زیادہ خوفناک اور غم انگیز چیز جس پر امام(ع) نے صبر کیا وہ بچوں اور اھل وعیال کا پیاس سے بلبلانا تھا ،جوپیاس کی شدت سے فریاد کر رھے تھے، آپ ان کو صبرو استقامت کی تلقین کررھے تھے اور ان کو یہ خبر دے رھے تھے کہ ان تمام مصائب و آلام کو سھنے کے بعد ان کا مستقبل روشن و منور ھو جا ئے گا ۔

آپ(ع) نے اس وقت بھی صبر کا مظاھرہ کیا جب تمام اعداء ایک دم ٹوٹ پڑے تھے اور چاروں طرف سے آپ(ع) کو نیزے و تلوار مار رھے تھے اور آپ(ع) کا جسم اطھرپیاس کی شدت سے بے تاب ھو رھا تھا ۔

عاشور کے دن آپ(ع) کے صبرو استقامت کو انسانیت نے نہ پہچانا ۔

اربلی کا کھنا ھے :”امام حسین(ع) کی شجاعت کو نمونہ کے طور پر بیان کیا جا تا ھے اورجنگ و جدل میں آپ(ع) کے صبرکو گذشتہ اور آنے والی نسلیں سمجھنے سے عا جز ھیں “۔[1]

بیشک وہ کو نسا انسان ھے جو ایک مصیبت پڑنے پر صبر ،عزم اور قوت نفس کے دامن کو اپنے ھاتھ سے نھیں چھوڑتا اور اپنے کمزور نفس کے سامنے تسلیم ھو جاتا ھے لیکن امام حسین(ع) نے مصیبتوں میں کسی سے کو ئی مدد نھیں ما نگی، آپ(ع) نے انتھا ئی صبر سے کام لیا اگرامام(ع) پر پڑنے والی مصیبتوں میں سے اگر کو ئی مصیبت کسی دوسرے شخص پر پڑتی تو وہ انسان کتنا بھی صبر کرتا پھر بھی اس کی طاقتیں جواب دے جاتیںلیکن امام(ع)کی پیشانی پر بل تک نہ آیا۔

مو رخین کا کھنا ھے :آپ(ع) اس عمل میں منفرد تھے، آپ(ع) پرپڑنے والی کو ئی بھی مصیبت آپ(ع) کے عزم میں کو ئی رکاوٹ نہ لا سکی ،آپ(ع) کا فرزند ارجمند آپ(ع) کی زندگی میں مارا گیا لیکن آپ(ع) نے اس پر ذرا بھی رنجیدگی کا اظھار نھیں کیا آپ(ع) سے اس سلسلہ میں سوال کیا گیا تو آپ(ع) نے فرمایا:”بیشک ھم اھل بیت(ع) اللہ سے سوال کرتے ھیں تو وہ ھم کو عطا کرتا ھے اور جب وہ ھم سے ھماری محبوب چیز کو لینا چا ہتا ھے تو ھم اس پر راضی رہتے ھیں “۔[2]

آپ(ع)ھمیشہ اللہ کی قضا و قدر پر راضی رھے اور اس کے حکم کے سامنے تسلیم رھے ،یھی اسلام کا جوھر اور ایمان کی انتھا ھے ۔

**********

[1] کشف الغمہ ،جلد ۲،صفحہ ۲۲۹۔

[2] الاصابہ، جلد ۲،صفحہ ۲۲۲۔