ظلم و ستم (و حق تلفی) سے منع کرنا

امام حسین(ع) کی ایک صفت ظلم و ستم سے منع کر نا تھی اسی وجہ سے آپ کو (ابو الضیم ) کا لقب دیا گیا، آپ کا یہ لقب لوگوں میں سب سے زیادہ مشھورو منتشر ھوا،آپ اس صفت کی سب سے اعلیٰ مثال تھے یعنی آپ ھی نے انسانی کرامت کا نعرہ لگایا،اور انسانیت کو عزت و شرف کا طریقہ دیا،آپ(ع) بنی امیہ کے بندروں کے سامنے نھیں جھکے اور نیزوں کے سایہ میں موت کی نیند سوگئے ،عبد العزیز بن نباتہ سعدی کا کھنا ھے :

والحسینُ الذی را ی الموت في العز

 

حیاةً وَالعیشَ في الذلِّ قتلا

”یعنی حسین وہ ھیں جنھوں نے عزت کی موت کو زندگی اورذلت کی زندگی سے بہتر سمجھا ھے “۔

مشھور و معروف مورّخ یعقوبی نے آپ کوشدید العزّت کی صفت سے متصف کیا ھے[1]۔

ابن ابی الحدید کا کھنا ھے :سید اھل اباء حضرت ابا عبد اللہ الحسین جنھوں نے لوگوں کو حمیت و غیرت کی تعلیم اور دنیوی ذلت کی زند گی کے مقابلہ میں تلواروں سے کٹ کر مرجانے کا درس دیا انھیں اور آپ کے اصحاب کو امان نامہ دیا گیا لیکن آپ نے ذلت اختیار نھیں فر ما ئی ،امام کو اس بات کا اندیشہ لا حق ھوا کہ ابن زیاد آپ کو قتل نہ کر کے ایک طرح کی ذلت سے دوچار کردے جس کی بنا پر جان فدا کرنے کو ترجیح دی ۔

ابو یزید یحییٰ بن زید علوی کا کھنا ھے :میرے والد ابو تمام نے محمد بن حمید طائی کے سلسلہ میں کھا ھے کہ انھوں نے تمام اشعار امام حسین(ع) کی شان میں کھے ھیں :

وقد کان فوت الموت سھلاً فردّہ

 

الیہ ِ الحفاظ المُرُّ وَالخُلُقُ الْوَعْرُ

وَنَفْسُ تعافُ الضَّیْمَ حتیّٰ کانّہُ

 

ھُو الکُفرُ یومَ الرَّوْعِ اَو دُونَہ الکُفرُ

فَاَثبت فی مستنقعِ الموتِ رِجْلَہُ

 

وَقَالَ لَھَا مِنْ تَحْتِ اَخمصکِ الحشْرُ

تردّیٰ ثِیَابَ الموْتِ حُمْراً فَمَا اَتیٰ

 

لَھَااللَّیْلُ اِلَّاوھی من سُنْدُسٍ خُضْرُ [2]


”آپ کے لئے مارے جانے سے بچنا آسان تھا لیکن آپ نے اس سے انکار کردیا۔

آپ نے نھایت مشکل کے ساتھ دین اسلام کی حفاظت کی ،اور خوش اخلاقی کے ساتھ بچایا ۔

آپ(ع) کا نفس ذلت قبول کرنے پرآمادہ نہ ھوا آپ کے نزدیک ذلت قبول کرناکفر یا کفر کی منزل میں تھا “۔

**********

[1] تاریخ یعقوبی، جلد ۲،صفحہ ۲۹۳۔

[2] شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید، جلد ۳، صفحہ ۲۴۹۔