شعبان و رمضان کے روزوں کا ثواب

شعبان کے روزے کا ثواب 
(۱) حضرت امام محمد باقر (علیہ السلام) فرماتے ہیں جو شخص شعبان کا روزہ رکھے گا تو یہ روزہ اسے ہر عیب ، عار اور غصّے سے پاک کردے گا۔ ابو حمزہ کہتے ہیں میں نے آنحضرت سے پوچھا عیب اور عار سے کیا مراد ہے؟ فرمایا خدا کی نافرمانی کی قسم اور نذر ، میں نے پوچھا غصے سے کیا مراد ہے ؟ فرمایا غضب اور غصے میں قسم کھا نا اور پھر تو بہ کرکے پشیمان ہونا ۔ 
(۲) راوی کہتا ہے کہ حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) کے پاس ماہ شعبان کے روزے کے متعلق گفتگو چل نکلی آپ نے فرمایا اس روزے کی یہ اور وہ فضیلت ہے اور اس میں یہ ، یہ ثواب ہے یہاں تک کہ اگر کوئی محترم شخص کا خون کر بیٹھتا ہے تواگر ( توبہ کے طور پر ) شعبان کا روزہ رکھے گا تویہ اسکے لئے مفید ہو گا اور اسے معاف کر دیا جائے گا۔ 
(۳) حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں جو شخص ماہ شعبان اور رمضان کے پے در پے روزے رکھے تو خدا کی قسم بارگاہ خداوندی میں یہ روزے اسکی تو بہ (شمار) ہوگی۔ 
(۴) راوی کہتاہے میں نے حضرت امام جعفرصادق علیہ السلا م کو فرما تے ہوئے سنا۔کہ جوشخص شعبان کے پہلے دن روزہ رکھے گاتو حتماًا س پر جنت واجب ہو جائے گی۔اور جو شخص دو روزے رکھے گا توالله تعالیٰ دنیا میں ہرروز و شب اس پر نظر (کرم) کرے گا اورجنت میں بھی اس پر نظر (کرم) رکھے گا جو تین دن روزے رکھے گا تو اسے جنت کے عرش پر ہر روز(دل کی آنکھوں سے) الله کی زیارت نصیب ہو گی۔ 
(۵) حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) روایت کرتے ہیں کہ حضرت رسول خدا نے فرمایا شعبان میرا اور رمضان الله کا مہینہ ہے اور یہ غرباء کی بہار ہے الله تعالیٰ نے عید الاضحی (قربان) مساکین کے گوشت کھانے کے لئے بنائی ہے ، لہذا تم قربانی کر کے انہیں گوشت دو ۔ 
(۶) راوی کہتا ہے کہ میں نے حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) سے فرماتے ہوئے سنا ہے کہ خدا کی قسم۔ شعبان اور رمضان کے روزے بارگاہ خداوندی میں توبہ ہیں۔ 
(۷) حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں کہ میرے والد کی عادت تھی کہ ما ہ شعبان اور رمضان کے درمیان ایک دن (روزہ نہ رکھکر ) فاصلہ ڈالتے تھے لیکن حضرت امام زین العابدین (علیہ السلام) دونوں مہینے متواتر روزہ رکھتے تھے اور فرماتے تھے ان دونوں مہینوں میں متواتر روزے رکھنا بارگاہ خداوندی میں توبہ ہے اور فرماتے یہ دونوں خدا کے مہینے اِس اور یہ دونوں پہلے اور بعد والے دو دو مہینوں کے گناہوں کا کفارہ ہیں 
(۸) حضرت امام محمد باقر (علیہ السلام) فرماتے ہیں کہ حضرت رسول خدا ماہ شعبان اور رمضان میں متواتر روزے رکھتے لیکن لوگوں کو متصل روزہ رکھنے سے منع فرماتے یہ دونوں خدا کے مہینے ہیں اوراس کے لئے اس مہینوں کے بعد اور پہلے والے مہینوں کا کفارہ ہیں۔ 
(۹) حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں کہ ازواج رسول الله کی گردن پر اگر کوئی واجب روزہ ہوتا تو وہ اسے شعبان تک اس چیز سے ڈرتے ہوئے مؤخر کر چھوڑ تیں کہیں حضرت کی ضروریات سے مانع نہ ہوجائیں جو نہی شعبان ہوتا تو یہ روزے رکھتیں اور حضرت بھی روزے رکھتے نیز حضرت فرماتے شعبان میرا مہینہ ہے ۔ 
(۱۰)راوی کہتا ہے کہ میں نے حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام)سے پوچھا کیا آپ کے آباوٴ اجداد میں کوئی ماہ شعبان کے روزے رکھتا تھا ؟ فرمایا جی ہاں ہمارے بہترین جدّ حضرت رسول خدا شعبان کے روزے رکھتے تھے۔ 
(۱۱)راوی کہتا ہے کہ میں نے حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) سے ماہ شعبان کے متعلق پوچھا کیا آپ کے آباوٴ اجداد نے کبھی یہ روزے رکھے ہیں فرمایا ہمارے بہترین جد حضرت رسول خدا شعبان میں کثرت سے روزے رکھتے تھے۔ 
(۱۲) حضرت رسول خدا سے رجب کے روزے کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا تمھیں ما ہ شعبان کے روزوں کی فکر کیوں نہیں ہے ؟ ۔ 
(۱۳) اسامہ بن زید کہتے ہیں کہ حضرت رسول خدا اتنے روزے رکھتے کہ لوگ کہتے کہ آپ ہمیشہ روزے سے ہوتے ہیں اور کبھی روزہ نہ رکھتے تو لوگ کہتے اب آپ روزے نہ رکھیں گے۔ راوی کہتا ہے میں نے پوچھا کہ کوئی ایسا مہینہ ہے جس میں حضرت بہت روزے رکھتے ہوں لیکن کسی اور مہینے میں اتنے روزے نہ رکھتے ہوں۔ فرمایا جی ہاں ، پوچھا کس مہینے میں ؟ کہا شعبان میں۔ شعبان جو کہ رجب اور رمضان کا درمیانی مہینہ ہے لوگ اس سے غافل ہیں حالانکہ اس مہینے میں تمام اعمال پروردگار عالم کی بارگاہ میں جاتے ہیں میری خواہش ہے کہ جب میرے اعمال اوپر جائیں تو میں روزے سے ہوں۔ 
(۱۴)حضرت رسول خدا سے پوچھا گیا کہ کونسے روزے افضل ہیں ؟ فرما یا ما ہ رمضان کی تعظیم میں شعبان کے روزے افضل ہیں ۔ 
(۱۵)راوی کہتا ہے کہ حضرت رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) شعبان کے علاوہ کسی مہینے میں پورے روزے نہ رکھتے فقط اسے رمضان کیساتھ متصل فرماتے ۔ 
(۱۶) ابن عباس کہتے ہیں حضرت رسول خدا کے اصحاب آپ کی بارگاہ میں ماہ شعبان کے فضائل کے متعلق گفتگو فرما رہے تھے۔ حضرت نے فرمایا۔ یہ شریف مہینہ ہے۔ اور میرا مہینہ ہے حاملان عرش اسے بزرگ سمجھتے ہیں اور اسکی قدر جانتے ہیں ۔ اس مہنیے میں ما ہ رمضان کیلئے مؤمنین کے رزق میں اضافہ ہوتا ہے اور بہشتوں کو سجایا جاتا ہے۔ اسے شعبان بھی اسی لیئے ہی کہا جاتا ہے کہ اسمیں مؤمنین کا رزق زیادہ ہوتا ہے۔ اس مہینے کے اعمال ستر مرتبہ دوگنے ہوتے ہیں۔ بدیاں ختم ہو جاتی ہیں ، گناہ مٹ جاتے ہیں ، حسنات قبول ہوتی ہیں ، الله اپنے بندوں پر فخر و مباھات کرتا ہے۔ اور اپنے عرش سے روزہ داروں اور عبادت گزاروں کو دیکھتا ہے اور ان کی وجہ سے اپنے عرش کے حاملین پر فخرو مباھات کرتا ہے اسوقت حضرت علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) کھڑے ہو کر عرض کرتے ہیں یا رسول الله میرے ماں باپ آپ پر قربان جائیں۔ ماہ شعبان کے روزے کے کچھ فضائل بیان فرمائیں تا کہ ہم اس ماہ کے روزے اور عبادت کی طرف زیادہ راغب ہوں اور خدا تعالیٰ کیلئے شب بیداری کریں ۔ 
حضرت نے فرمایا۔ 
جو شخص شعبان میں ایک روزہ رکھے گا تو خداوند متعال اسکے لئے ستر نیکیاں لکھے گا اور ہر نیکی ایک سال کی عبادت کے برابر ہوگی۔ 
جو شعبان میں دو روزے رکھے گا اسکے ہلاکت میں ڈالنے والے گناہ معاف ہو جائیں گے ۔ 
جو شعبان کے تین روزے رکھے گا تو بہشتوں میں اس کے در اور یاقوت سے ستر درجات بلند ہونگے ، 
جو شعبان کے چار روزے رکھے تو اسکا رزق وسیع ہو گا ۔ 
جو شعبان کے پانچ روزے رکھے وہ لوگوں میں محبوب ہوگا ۔ 
جو شعبان کے چھ روزے رکھے تو الله اس سے ستر قسم کی بلائیں دور کرے گا۔ 
جو شعبان کے سات روزے رکھے تو وہ شیطان اور اسکے لشکر کے وسوسوں اور چکروں سے محفوظ ہوگا ۔ 
جو شعبان میں آٹھ روزے رکھے گا تو وہ دنیا سے پیاسا نہیں جائے گا اور اسے پاک حوض سے سیراب کیا جائے گا ۔ 
جو شعبان کے نو روزے رکھے تو سوال وجواب کے وقت منکر اور نکیر اس پر مہربان ہونگے ۔ 
جو شعبان کے دس روزے رکھے تو اس کی قبر ستر ضرب (ستر ہاتھ) وسیع ہو جائے گی۔ 
جو شعبان کے گیارہ روزے رکھے تو اس کی قبر کو گیارہ منارہٴ نور منور کریں گے۔ 
جو شعبان کے بارہ روزے رکھے تو صور پھونکنے کے دن تک ہر روز ستر ہزار فرشتے قبر میں اسکی زیارت کریں گے۔ 
جو شعبان کے تیرہ روزے رکھے ساتوں آسمانوں کے فرشتے اسکے لئے استغفار کریں گے ۔ 
جو شعبان کے چودہ روزے رکھے تمام درندے ، چوپا ہے ، حتی دریا میں مچھلیوں تک کو الھام ہو گا کہ اسکے لئے استغفار کریں۔ 
جو شعبان کے پندرہ روزے رکھے رَبّ العزّت ندادیتا ہے کہ مجھے اپنی عزت کی قسم تجھے جہنم میں نہیں جلاؤں گا ۔ 
جو شعبان کے سولہ روزے رکھے توآگ کے ستر دریا اس پر بجھا دیئے جائیں گے ۔ 
جو شعبان کے سترہ روزے رکھے جہنم کے تمام دروازے اس پر بند کر دیئے جائیں گے۔ 
جو شعبان کے اٹھاراں روزے رکھے جنت کے تمام دروازے اس پر کھول دیئے جائیں گے۔ 
جو شعبان کے انیس روزے رکھے تو بہشت میں اسے در اور یاقوت کے بنے ہوئے ستر ہزار محل عطا کیے جائیں گے۔ 
جو شعبان کے بیس روزے رکھے تو ستر ہزار حور العین کے ساتھ اسکی تزویج ہو گی۔ 
جو شعبان کے اکیس روزے رکھے فرشتے اسے خوش آمدید کہیں گے اور اپنے پر اسکے جسم پر ملیں گے۔ 
جو شعبان کے بائیس روزے رکھے تو اسے سندس اور استبرق کے ستر ہزار لباس پہنائے جائیں گے۔ 
جو شعبان کے تیئس روزے رکھے قبر سے نکلتے وقت اسے نورانی چوپا ہے پر سوار کراکے جنت کی سیر کرائے جائے گی۔ 
جو شعبان کے چوبیس روزے رکھے وہ ستر ہزار اہل توحید کی شفاعت کرے گا۔ 
جو شعبان کے پچیس روزے رکھے اسے نفاق سے بیزاری عطا کی جائے گی۔ 
جو شعبان کے چھبیس روزے رکھے الله اسے پل صراط سے گزر نے کا پر مٹ عطا کرے گا۔ 
جو شعبان کے ستائیس روزے رکھے الله اس کے لئے جہنم سے رہائی کا حکم لکھے گا۔ 
جو شعبان کے اٹھائیس روزے رکھے اسکا چہرہ درخشان ہوگا اور اس کے چہرے سے نور بر سے گا۔ 
جو شعبان کے انتیس روزے رکھے اسے الله تعالیٰ رضوان نصیب کرے گا۔ 
جو شعبان کے تیس روزے رکھے حضرت جبرائیل (علیہ السلام) عرش کے سامنے کھڑے ہو کر ندا دیں گے اے شخص نئے سرے سے اعمال شروع کر تیرے گذشتہ گناہ معاف کردئیے گئے ہیں۔ الله جل شانہ فرمائے گا اگر تیرے گناہوں کی تعداد آسمان کے ستاروں ، بارش کے قطروں ، درختوں کے پتوں ، ریت کے ذرّوں ، شبنم کے قطروں اور دنیا کے دنوں کے برابر بھی ہوں تو تب بھی تجھے معاف کردوں گا۔ ماہ شعبان کے روزے رکھنے کے عوض اتنی مغفرت اور ثواب الله کی بارگاہ میں کوئی زیادہ نہیں ہے۔ حضرت ابن عباس کہتے ہیں یہ سب ماہ شعبان ہی کا ثواب ہے۔