عرض مترجم

زیر نظر کتاب یا اس کے مؤلف کے بارے میں کچھ کہنا سورج کو چراغ دیکھانے کے مترادف ہے۔ چوتھی صدی کے اوائل لکھی جانی والی اس کتاب کا شمار اصول روائی کی معتبر ترین کتب میں ہوتا ہے ۔ علامہ مجلسی کے بقول شیخ صدوق (علیہ الرحمہ) کی کتابوں کی شہرت کتب اربعہ کے نزدیک نزدیک ہے ۔ اس کتاب میں شیخ صدوق علیہ الرحمہ نے اچھے اعمال کی جزاء اور برے اعمال کی سزا بیان کی ہے۔ یہ کتاب اسلامی احکام ، حلال اور حرام کا معتبر ترین انسیکلوپیڈیا ہے۔ شاید ہی کوئی ایسا دانشمند یا ادیب ہو ،جو کسی موضوع پر قلم تو اٹھائے ، اوروہ اس کتاب کا محتاج نہ ہو۔ 
آپ تفاسیرکا مطالعہ کریں۔ (تفسیر صافی، تفسیر مجمع البیان، تفسیر نور الثقلین غرض) چوتھی صدی کے بعد لکھی جانے والے تقریباً ہر تفسیر نے اس کتاب سے ضرور استفادہ کیا ہے۔ اسی طرح عقائد، اخلاقیات اور دوسرے موضوع پر قلم اٹھانے والے علماء کو اس کتاب کی احتیاج رہی ہے۔اس کتاب کی تألیف کی وجہ بیان کرتے ہوئے شیخ صدوق(علیہ الرحمہ) فرماتے ہیں کہ حضرت رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کا فرمان ہے کہ نیک اعمال کی طرف راہنمائی کرنے والا، انہیں بجالانے والے کی طرح ہے۔ لہذا ہم نے بھی ثواب کی امید اور یقین پر اس کتاب کو اردو زبان میں منتقل کر دیا ہے تاکہ اردو دان طبقہ اس کتاب کے فیض سے بہرہ مند ہوسکے۔ قاری کو بھی ثواب ملے اور ہم بھی اس سے حصّہ پائیں۔ 
اس کتاب میں کلی طور پر ۱۱۱۹ احادیث بیان کی گئی ہیں اور انہیں مجموعی طور پر ۵۲۰ عنوانات کے ذیل میں بیان کیا گیا ہے۔اگر جداگانہ دیکھا جائے تو ثواب الاعمال کے طور پر ۳۸۹ عنوانات کے تحت ۷۸۸ احادیث مذکور ہوئی ہیں جبکہ عقاب الاعمال کے لحاظ سے ۱۳۱ عنوانات کے ذیل میں ائمہ اطہار (علیھم السلام) کے ۳۳۱ فرامین بیان ہوئے ہیں ۔ 
اس کتا ب میں اردو ترجمے کیساتھ ساتھ مکمل عربی عبارت بھی دی جارہی ہے اور عربی عبارت کو اعراب سے مزّین بھی کردیا گیا ہے تا کہ اس سے ہر خاص و عام استفادہ کرسکے۔اردو ترجمے میں روایات کی سند بیان نہیں کی گئی کیونکہ عموماً حدیث کی سند کا ترجمہ نہیں کیا جاتا ۔ بہر حال محققین حضرات اس سلسلے میں عربی عبارت ملاحظہ فرمائیں،وہاں مکمل سند مذکور ہے۔ البتہ سند میں سے ائمہ اطہار (علیھم السلام) کے اسمائے مبارک کا اردو ترجمہ میں بھی تبرک کے طور پر ذکر موجود ہے۔بہر حال شیخ صدوق کے نام سے مشہور شخصیت جناب محمد بن علی بن حسین بابویہ قمی ۳۰۵ ہجری قمری میں قم جیسے علم و اجتھاد کے مرکز میں پیدا ہوئی۔ 
شیخ صدوق علیہ الرحمہ کی پیدائش کے حوالے جناب شیخ طوسی علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں کہ آپ کے والد محترم نے اپنی چچا زاد سے شادی کی اور حضرت امام زمان ﴿عج﴾ کی خدمت میں جناب ابو القاسم حسین بن روح کے واسطے سے دعا کی درخواست کی کہ خدا مجھے صالح اور فقیہ اولاد عطا فرمائے۔کچھ عرصے بعد حضرت امام زمان ﴿عج﴾ کا جواب موصول ہوا جس کی عبارت یہ تھی۔ اس بیوی سے تیری اولاد نہیں ہے ۔ لیکن بہت جلد دیلمی کنیز سے تیری شادی ہوگی۔ اس سے تیرے دو بیٹے ہونگے۔ اور دونوں فقیہ ہونگے۔ 
شیخ صدوق علیہ الرحمہ خود بھی اپنی کتاب کمال الدین میں اسی مطلب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں۔جب بھی جعفر بن محمد بن علی الاسود سے میری ملاقات ہوتی اور وہ مجھے استاد کے سامنے زانو ادب طے کرتا ہوا دیکھتے تو فرماتے ۔ تیرا علم دین میں میلان اور اشتیاق تعجب کا باعث نہیں ہے ، تو پیدا جو امام زمان ﴿عج ﴾ کی دعا سے ہوا ہے۔ 
جہاں آپ کی یہ خصوصیت ہے کہ آپ امام زمانہ کی دعاؤں سے متولد ہوئے ، وہاں یہ خصوصیت بھی ہے کہ آپ کا خاندان ایک علمی خاندان تھا۔ آپ کے والد محترم جناب علی بن حسین بن بابویہ کا شمار قم کے برجستہ ترین علماء و فقہاء میں ہوتا تھا بلکہ اس زمانہ میں ہدایت و مرجعیت کا پرچم آپ کے والد کے دوش پر تھا انہوں نے تجارت کیساتھ ساتھ تدریس اور تبلیغ احکام کا بیڑا بھی اٹھا رکھا تھا۔شیخ صدوق علیہ الرحمہ کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے آپ کو عصر ائمہ (علیھم السلام) کے نزدیک ترین زمانے میں زندگی کرنا نصیب ہوئی ۔ بیس بائیس سال کی عمر تک اپنے والد محترم اور دوسرے بزرگ قمی علماء سے کسب فیض فرماتے رہے۔والد صاحب کی وفات کے بعد علوم آل محمد کی ترویج اور نشرو اشاعت کی ذمہ داری آپ کے کندھوں پر آگئی اور آپ نے یہ ذمہ داری بخوبی نبھائی۔ 
جناب شیخ طوسی آپ کے متعلق فرماتے ہیں کہ آپ جلیل القدر عالم اور حافظ حدیث تھے۔ آپ بے نظیر شخصیت کے مالک تھے اور تقریباً تین سو کے قریب کتابوں کے مؤلف بھی تھے۔علامہ بحرینی آپ کی عظمت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ہمارے تقریباً تمام علماء مثلاً جناب علامہ مختلف میں، جناب شہید شرح ارشاد میں اور جناب سید محقق داماد اپنی کتابوں میں آپ کی مرسلہ روایات کو بھی صحیح شمار کیا کرتے تھے، بلکہ ان پر عمل کرتے تھے حتی کہ جس طرح ابن عمیر کی مرسلہ روایات قابل قبول تھیں۔ اسی طرح شیخ صدوق کی روایات بھی قابل قبول تھیں۔ 
اساتید:۔ 
(۱) علی بن حسین بن موسیٰ بن بابویہ قمی (آپ کے والد محترم) 
(۲) محمد بن حسن بن احمد ولید 
(۳) حمزہ بن محمد بن احمد بن جعفر بن محمد بن زید بن حضرت علی (علیہ السلام) 
(۴)ابوالحسن ، محمد بن قاسم 
(۵) ابو محمد، قاسم بن محمد استر آبادی 
(۶) ابو محمد ، عبدوس بن علی 
(۷) محمد بن علی استر آبادی 
شاگردان 
(۱) حسین بن علی بن موسیٰ بن بابویہ (بھائی) 
(۲) شیخ مفید علیہ رحمہ 
(۳) حسن بن حسین بن علی (بھتیجا) 
(۴) علی بن احمد بن عباس ( نجاشی کے والد محترم) 
(۵) ابو القاسم علی بن محمد بن علی خزاز 
(۶) ابن غضائری ابو عبدالله حسین بن عبید الله 
(۷) شیخ جلیل ابو الحسن جعفر بن حسین 
(۸) شیخ ابو جعفر محمد بن احمد بن عباس بن فاحز 
(۹) ابو زکریا محمد بن سلیمان حمدانی 
(۱۰) شیخ ابو البرکات ، علی بن حسن خوزی 
تالفات 
آپ کی تألیفات کے حوالے سے اشارہ ہو چکا ہے کہ شیخ طوسی نے فرمایا کہ آپ نے تین سو سے زیادہ کتابیں تألیف فرمائی ہیں۔ اگر چہ آپ کی تمام کتابیں گرانبھا گوہر ، تابناک موتی اور علم کا گنجینہ ہیں۔ اس کا اندازہ صرف اس بات سے لگالیں کہ تیرہ سو سال گزرنے کے باوجود آپ کی کتابیں آج بھی ہر کتابخانے ، عالم دین ، عوام ، طالب علم غرض ہر طبقے سے تعلق رکھنے والے شخص کی ضرورت بنی ہوئی ہیں۔ نہ تو فقہاء کے سینے انہیں یاد کرنے سے اکتائے ہیں اور نہ نوجواں کے ذہن ۔ نہ ان کی رونق ختم ہوئی ہے نہ ان کی ارزش و قیمت۔ ان کی چاشنی اور اہمیت پہلے دن کی طرح باقی ہے۔ آپ کی بعض تألیفات درج ذیل ہیں۔ 
(۱) من لایحضرہ الفقیہ 
(۲) مدینة العلم 
(۳) کمال الدین و تمام النعمة 
(۴) توحید 
(۵) خصال 
(۶) معانی الاخبار (۷) عیون اخبار رضا (علیہ السلام) 
(۸) أمالی شیخ صدوق
(۹) المقنعہ فی الفقہ 
(۱۰) الھدایة فی الخیر۔ 
آخر کار ۳۸۱ ہجری کا وہ دن بھی آیا جب خاندان اہلبیت (علیھم السلام) کے حقیقی موالی نے اس فانی دنیا سے رخت سفر باندھ لیا اور تمام شیعیان جہان نے موت العَالِم موت العَالَم کے مفہوم کو حقیقی معنوں میں ملاحظہ کیا۔ 
والسلام علیکم ورحمة الله وبرکاتہ 
سید محمد نجفی۔قم