پہلا مقصد امام حسین کی زیارت کی فضلیت

واضح رہے کہ حضرت امام حسین- کی زیارت کی فضلیت احاطہ بیان سے باہر ہے اور بہت سی احادیث میںآیا ہے کہ شہید نینوا کی زیارت حج‘ عمرہ اور جہاد کے برابر ہے بلکہ اس سے بھی کئی درجے افضل ‘ مغفرت کا سبب‘ حساب و کتاب میں آسانی، درجات کی بلندی‘ قبولیت دعا‘ طول عمر‘ حفظ جان و مال‘ روزی میں فراوانی‘ حاجات کے پورا ہونے اور غم و اندیشے کے دور ہونے کا موجب ہے اسی طرح آپ کی زیارت کا ترک کرنا دین و ایمان میں نقص اور حضرت رسول کے حقوق میں سے ایک انتہائی اہم حق کے چھوڑ دینے کا سبب ہے۔ وہ جو حضرت امام حسین- کے زائر کا کمترین ثواب ہے یہ ہے کہ اس کے گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس کی جان و مال کی حفاظت اس وقت تک فرماتا ہے جب تک وہ اپنے اہل خانہ میں واپس نہیں آجاتا اور قیامت میں تو خدائے تعالیٰ دنیا کی نسبت اس کی زیادہ حفاظت فرمائے گا۔ بہت سی روایتوں میں مذکور ہے کہ آپ کی زیارت غموں کو دور کرتی ہے جان کنی کی سختی اورقبر کی ہولناکی سے بچاتی ہے زیارت کرنے میں جو مال زائر خرچ کرتا ہے اس کے ہر درہم کے بدلے میں ایک ہزار بلکہ دس ہزار درہم لکھے جاتے ہیں۔ جب زائر آپ کے روضہ مبارک کی طرف روانہ ہوتا ہے تو چار ہزار فرشتے اس کے استقبال کو بڑھتے ہیں اور جب وہ واپس جاتا ہے تو اتنے ہی فرشتے اسے رخصت کرنے آتے ہیں۔ تمام پیغمبر اوصیائ‘ ائمہ طاہرین اور ملائکہ امام حسین- کی زیارت کے لیے آتے ہیں اور آپ کے زائروں کے لیے دعائے خیر کرتے ہیں اور انہیں بشارت دیتے ہیں‘ اللہ تعالیٰ ان پر نظر رحمت کرنے میںانہیںعرفات والوں پر اولیت دیتا ہے قیامت کے دن ان کی عزت وتکریم کو دیکھ کر ہر شخص یہ تمنا کرے گا کہ اے کاش میں بھی زائرین حسین- میں سے ہوتا اس بارے میں بہت سے روایات وارد ہوئی ہیں جن کی طرف ہم آپ کی مخصوص زیارات کی فضلیت کے بیان میں اشارہ کریں گے فی الحال ہم ایک روایت نقل کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ ابن قولویہ(رح) شیخ کلینی(رح) اور سید ابن طائوس وغیرہم نے ثقہ جلیل القدر معاویہ بن وہب بجلی کوفی سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا: ایک موقع پر میں امام جعفر صادق - کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ کو مصلے پر مشغول عبادت دیکھا‘ میں وہاں بیٹھا رہا یہاں تک کہ آپ(ع) نماز سے فارغ ہوئے تو میں نے آپ کو اپنے پروردگار سے راز و نیاز فرماتے ہوئے سنا کہ اے پروردگار! تو نے ہمیں اپنی طرف سے خاص بزرگیاں عطا فرمائیں اور ہمیں یہ وعدہ دیا کہ ہم شفاعت کریں گے۔ ہمیں علوم نبوت دیے اور پیغمبروں کا وارث بنایا اور ہماری آمد پر سابقہ امت کا دور ختم کر دیا تو نے ہمیں پیغمبر اکرم(ص) کا وصی بنایا اور گزشتہ و آئندہ کا علم بخشا اور لوگوں کے دل ہماری طرف مائل کر دیے مجھے میرے بھائیوں اور امام حسین- کے زائروں کو بخش دے اور ان لوگوں کو بھی بخش دے جو اپنا مال صرف کر کے اور اپنے شہروں کو چھوڑ کر حضرت کی زیارت کو آئے ہیں وہ ہم سے نیکی طلب کرنے تجھ سے ثواب حاصل کرنے ہم سے متصل ہونے تیرے پیغمبر (ص) کوخوشنود کرنے اور ہمارے حکم کی اطاعت کرنے آئے ہیں‘ جس کے باعث ہمارے دشمن ان کے دشمن ہو گئے۔ حالانکہ وہ اپنے اس عمل میں تیرے پیغمبر(ص) کو راضی و خوش کرناچاہتے تھے۔ اے اللہ! تو ہی اس کے بدلے میں انہیں ہماری خوشنودی عطا فرما‘ دن اور رات میں ان کی حفاظت کر‘ ان کے خاندان اور اولاد کا نگہبان رہنا کہ جن کو وہ اپنے وطن میں چھوڑ آئے ہیں‘ ان کی اعانت کر ہر جابر و دشمن ناتواں و توانا اور جن وانس کے شرکو ان سے دور رکھ۔ ان کو اس سے کہیںزیادہ عطا فرما جس کی وہ تجھ سے امید رکھتے ہیں ‘ جب وہ اپنے وطن‘ اپنے خاندان اور اپنی اولاد کو ہماری خاطر چھوڑ کر آ رہے تھے تو ہمارے دشمن ان کو طعن و ملامت کر رہے تھے۔ خدایا جب وہ ہماری طرف آ رہے تھے تو ان کی ملامت پر وہ ہماری طرف آنے سے رکے نہیں ہیں‘ خدایا! انکے چہروں پر رحم فرما جن کو سفر میں سورج کی گرمی نے متغیر کر دیا‘ ان رخساروں پر رحم فرما جو قبر حسین- پر ملے جا رہے تھے۔ ان آنکھوں پر رحم فرما جو ہمارے مصائب پر رو رہی ہیں‘ ان دلوں پر رحم فرما جو ہماری مصیبتوں پر رنج و غم ظاہر کر رہے ہیں اور ہمارے دکھ میں دکھی ہیں اور ان آہوں اور چیخوں پر رحم فرما جو ہماری مصیبتوں پر بلند ہوتی ہیں۔ خدایا! میں ان کے جسموں اور جانوں کو تیرے حوالے کر رہا ہوں کہ تو انہیں حوض کوثر سے سیراب کرے جب لوگ پیاسے ہوں گے‘ آپ بار بار یہی دعا سجدے کی حالت میں کرتے رہے۔ جب آپ فارغ ہوئے تو میں نے عرض کیا کہ جو دعا آپ فرما رہے تھے اگر یہ اس شخص کیلئے بھی کی جائے جو اللہ تعالیٰ کو نہ جانتا ہو تو بھی میرا گمان ہے کہ جہنم کی آگ اسے نہ چھوئے گی۔ قسم بخدا اس وقت میں نے آرزو کی کاش میں نے بھی امام حسین- کی زیارت کی ہوتی اور حج پرنہ آتا اس پر آپ نے فرمایا کہ تم حضرت کے روضہ اطہر کے نزدیک ہی رہتے ہو۔ پس تمہیں ان کی زیارت کرنے میں کیا رکاوٹ ہے‘ اے معاویہ ابن وھب! تم آنجناب کی زیارت ترک نہ کیا کرو۔ تب میںنے عرض کیا کہ میں آپ پر قربان ہو جائوں!میں یہ نہ جانتا تھا کہ آپ حضرات کی زیارت کی فضلیت اس قدر ہے‘ آپ نے فرمایا کہ اے معاویہ! جو لوگ امام حسین- کے زائرین کے لیے زمین میں دعا کرتے ہیں ان سے کہیں زیادہ مخلوق ہے جو آسمان میں ان کے لیے دعا کرتی ہے ۔ اے معاویہ! زیارت حسین- کو کسی خوف کی وجہ سے ترک نہ کیا کرو۔ کیونکہ جو شخص کسی کے خوف کی وجہ سے آپ کی زیارت ترک کرے گا اسے اس قدر حسرت اور شرمندگی ہو گی کہ وہ تمنا کرے گا کہ کاش میں ہمیشہ آپ کے روضہ پر رہتا اور وہیں دفن ہوتا۔ کیا تجھے یہ بات پسند نہیں کہ حق تعالیٰ تجھ کو ان لوگوں کے درمیان دیکھے جن کے لیے حضرت رسول مولا امیر المومنین‘ سیدہ فاطمہ زہر ااور ائمہ طاہرین دعا کر رہے ہیں۔ کیا تم نہیں چاہتے کہ تم ان لوگوں میں سے ہو کہ جن سے روز قیامت فرشتے مصافحہ کریں‘ کیا تم نہیں چاہتے کہ تم ان لوگوں میں سے ہو کہ‘ جو قیامت میں آئیں تو ان کے ذمہ کوئی گناہ نہ ہو گا آیا تم نہیں چاہتے کہ تم ان لوگوں میں سے ہو کہ جن سے حضرت رسول قیامت کے دن مصافحہ کریں گے۔