زیارت حضرت حمزہ (ع) احد میں

اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا عَمَّ رَسُولِ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَآلِہِ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا خَیْرَ
سلام ہو آپ پر اے حضرت رسول کے چچا سلام ہو آپ پر اے شہدائ 
الشُّھَدائِ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا ٲَسَدَ اﷲِ وَٲَسَدَ رَسُو لِہِ، ٲَشْھَدُ ٲَ نَّکَ قَدْ جاھَدْتَ فِی
میں بہترین سلام ہوآپ پر اے اللہ کے شیر اور اس کے رسول(ص) کے شیر میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ نے راہ خدا
اﷲِ عَزَّ وَجَلَّ وَجُدْتَ بِنَفْسِکَ وَنَصَحْتَ رَسُولَ اﷲِ، وَکُنْتَ فِیما عِنْدَ اﷲِ سُبْحانَہُ 
میں جہاد کیا اپنی جان کی قربانی پیش کی خدا کے رسول(ص) کی خیر خواہی فرمائی اور آپ خدا کے ہاں جو اجر تھا اس کی طرف 
راغِباً، بِٲَبِی ٲَنْتَ وَٲُمِّی ٲَ تَیْتُکَ مُتَقَرِّباً إلَی اﷲِ عَزَّ وَجَلَّ بِزِیارَتِکَ، وَمُتَقَرِّباً إلی 
راغب ہوئے میرے ماں باپ آپ پر قربان میں آپ کی بارگاہ میں حضرت رسول(ص)کی قربت کے لئے آیا ہوں اس طر ح میں متوجہ 
رَسُولِ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَآلِہِ بِذلِکَ، راغِباً إلَیْکَ فِی الشَّفاعَۃِ، ٲَبْتَغِْی 
ہوا ہوں آپ کی طرف شفاعت کیلئے کہ آپ کی زیارت کے ذریعے اپنے بچاؤ کے واسطے آپ کی پناہ حاصل کروں اس آگ سے
بِزِیارَتِکَ خَلاصَ نَفْسِی، مُتَعَوِّذاً بِکَ مِنْ نارٍ اسْتَحَقَّہا مِثْلِی بِما جَنَیْتُ عَلی 
جو میرے لئے یقینی ہو چکی ہے اس ستم کے بدلے جو میں نے خود پر کیا اپنے ان گناہوں سے بھاگا ہوں جو میں نے اپنی
نَفْسِی، ھارِباً مِنْ ذُ نُوبِیَ الَّتِی احْتَطَبْتُھا عَلی ظَھْرِی، فَزِعاً إلَیْکَ رَجائَ رَحْمَۃِ
پشت پر اٹھا رکھے ہیں اپنے رب کی رحمت کی امید میں آپ کے پاس گھبرایا ہوا آیا ہوں اپنی گردن
رَبِّی، ٲَتَیْتُکَ مِنْ شُقَّۃٍ بَعِیدَۃٍ طالِباً فَکاکَ رَقَبَتِی مِنَ النَّارِ، وَقَدْ ٲَوْقَرَتْ ظَھْرِی
آگ سے چھڑانے کے لئے دور دراز کا سفر کرکے آپ کے پاس آیا کھڑا ہوں جبکہ اپنے گناہوں 
ذُنُوبِی، وَٲَ تَیْتُ مَا ٲَسْخَطَ رَبِّی، وَلَمْ ٲَجِدْ ٲَحَداً ٲَ فْزَعُ إلَیْہِ خَیْراً لِی 
کا بار میری پشت پر ہے اور میں وہ لایا ہوں جس سے میرا رب ناراض ہے میں کسی کو نہیں پاتا کہ اس سے فریاد کروں جو میرے لئے 
مِنْکُمْ ٲَھْلَ بَیْتِ الرَّحْمَۃِ، فَکُنْ لِی شَفِیعاً یَوْمَ فَقْرِی وَحاجَتِی، فَقَدْ 
آپ اہلبیت (ع)رحمت سے بہتر ہو پس آپ فقر و حاجت کے دن میری شفاعت کرنے والے بن جائیں کہ میں مخزون ہو کر
سِرْتُ إلَیْکَ مَحْزُوناً، وَٲَ تَیْتُکَ مَکْرُوباً، وَسَکَبْتُ عَبْرَتِی عِنْدَکَ باکِیاً 
آپ کے پاس آیا اور کرب و غم کے عالم میں آپ کے حضور آیا اور آپ کی خدمت میں آکر میں نے بے بسی میں آنسو بہائے ہیں 
وَصِرْتُ إلَیْکَ مُفْرَداً، وَٲَ نْتَ مِمَّنْ ٲَمَرَ نِیَ اﷲُ بِصِلَتِہِ، وَحَثَّنِی عَلی 
میں سب کو چھوڑ کر آپ کی طرف چلا آیا ہوں اور آپ وہ ہیں جن سے وابستہ ہونے کا خدا نے مجھے حکم دیا جن سے اچھائی کی 
بِرِّہِ، وَدَلَّنِی عَلی فَضْلِہِ، وَھَدانِی لِحُبِّہِ، وَرَغَّبَنِی فِی الْوِفادَۃِ إلَیْہِ، 
ترغیب دی جن کی فضیلت سے مجھے آگاہ کیا جن سے محبت رکھنے کی ہدایت کی جن کی طرف آنے کا شوق دلایا جن کی قربت میں 
وَٲَلْھَمَنِی طَلَبَ الْحَوائِجِ عِنْدَہُ، ٲَ نْتُمْ ٲَھْلُ بَیْتٍ لاَ یَشْقیٰ مَنْ تَوَلاَّکُمْ ، وَلاَ یَخِیبُ
طلب حاجات کرنے کی تعلیم دی اے نبی(ص) کے اہل خاندان آپ لوگوں کا چاہنے والا بد بخت نہیں ہے جو آپ کے پاس آئے 
مَنْ ٲَتاکُمْ، وَلاَ یَخْسَرُ مَنْ یَھْواکُمْ، وَلاَ یَسْعَدُ مَنْ عاداکُمْ ۔
وہ ناکام نہیں ہے جوآپ سے محبت رکھے اسے نقصان نہیں ہے جو آپ کا دشمن ہو اسے کامیابی نہیں ملتی ۔
اس کے بعد قبلہ رو ہو کر دو رکعت نماز زیارت پڑھے ۔پھر عم رسول (ص)حضرت حمزہ(ع) کی قبر مبارک سے لپٹ جائے اور کہے:
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلی مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ اَللّٰھُمَّ إنِّی تَعَرَّضْتُ لِرَحْمَتِکَ بِلُزُومِی لِقَبْرِ عَمِّ 
اے معبود! رحمت نازل کر محمد(ص) و آل(ع) محمد(ص) پراے معبود ! میں تیری رحمت کی خواہش لے کر تیرے نبی (ص)کے چچا 
نَبِیِّکَ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَآلِہِ لِیُجِیرَنِی مِنْ نِقْمَتِکَ وَسَخَطِکَ وَمَقْتِکَ فِی یَوْمٍ تَکْثُرُ 
(ع)کی قبر مبارک کے ساتھ لپٹا ہوا ہوں تاکہ مجھ کو اس روز تیرے عذاب سے پناہ ملے جس میں ہر طرف 
فِیہِ الْاََصْواتُ، وَتُشْغَلُ کُلُّ نَفْسٍ بِمَا قَدَّمَتْ وَتُجَادِلُ عَنْ نَفْسِھا، فَ إنْ تَرْحَمْنِی 
چیخ و پکار ہو گی اور ہر شخص اپنے کیے ہوئے اعمال میں گھرا ہوا اپنے آپ کو ملامت کر رہا ہو گااور فقط اپنا دفاع کر رہا ہو گا پس اگر اس 
الْیَوْمَ فَلاَ خَوْفٌ عَلَیَّ وَلاَ حُزْنٌ، وَ إنْ تُعاقِبْ فَمَوْلیً لَہُ الْقُدْرَۃُ عَلی عَبْدِہِ، وَلاَ 
دن تو مجھ پر رحم فرمائے تو مجھے نہ خوف ہو گا نہ غم اور اگر سزا دے گا تو بھی مولا و مالک کو اپنے غلام پر اختیار حاصل ہے اور آج
تُخَیِّبْنِی بَعْدَ الْیَوْمِ، وَلاَ تَصْرِفْنِی بِغَیْرِ حاجَتِی، فَقَدْ لَصِقْتُ بِقَبْرِ عَمِّ نَبِیِّکَ، 
کے بعد مجھ کو نا امید نہ کر اور حاجات پوری کیے بغیر نہ پلٹا کیونکہ میں تیرے نبی(ص) کے چچا کی قبر سے لپٹا ہوا ہوں 
وَتَقَرَّبْتُ بِہِ إلَیْکَ ابْتِغائَ مَرْضاتِکَ، وَرَجائَ رَحْمَتِکَ، فَتَقَبَّلْ مِنِّی، 
اور ان کے ذریعے تیرے قریب ہوا ہوں تیری خوشنودی کی جستجو اور تیری رحمت کی امید کرتا ہوں پس میری زیارت قبول فرما
وَعُدْ بِحِلْمِکَ عَلی جَھْلِی، وَبِرَٲْفَتِکَ عَلی جِنایَۃِ نَفْسِی، فَقَدْ عَظُمْ جُرْمِی، وَمَا 
میرے جہل پر نرمی اور میرے خود پر کیے ہوئے ستم پر مہربانی سے کام لے گویا میرا جرم بڑا ہے مجھے خوف نہیں 
ٲَخافُ ٲَنْ تَظْلِمَنِی وَلکِنْ ٲَخافُ سُوئَ الْحِسابِ، فَانْظُرِ الْیَوْمَ تَقَلُّبِی عَلی قَبْرِ عَمِّ 
کہ تو مجھ پر ظلم کرے گا لیکن حساب کی سختی سے ڈرتا ہوں پس یہ دیکھ کہ آج میں تیرے نبی(ص) کے چچا کی قبر پر
نَبِیِّکَ، فَبِھِمَا فُکَّنِی مِنَ النَّارِ، وَلا تُخَیِّبْ سَعْیِی، وَلاَ یَھُونَنَّ عَلَیْکَ ابْتِھالِی، وَلاَ 
تڑپ رہا ہوں تو بواسطہ ان دونوں کے مجھے آگ سے آزاد فرما اور میری یہ کوشش ناکام نہ کر اپنے حضور میری زاری کو ناچیز نہ بنا میری 
تَحْجُبَنَّ عَنْکَ صَوْتِی، وَلاَ تَقْلِبْنِی بِغَیْرِ حَوائِجِی، یَا غِیاثَ کُلِّ مَکْرُوبٍ وَمَحْزُونٍ
پکار کو خود تک پہنچنے سے نہ روک اور مجھے بغیر حاجت پوری کیے نہ پلٹا اے ہر مصیبت زدہ اور غمگین کے فریاد رس اے ہر 
وَیَا مُفَرِّجاً عَنِ الْمَلْھُوفِ الْحَیْرانِ الْغَرِیْقِ الْمُشْرِفِ عَلَی الْھَلَکَۃِ، فَصَلِّ عَلی 
دکھ کے مارے پریشان حال ڈوبے ہوئے ہلاکت میں پڑے ہوئے کو ان سختیوں سے نکالنے والے پس 
مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ وَانْظُرْ إلَیَّ نَظْرَۃً لاَٲَشْقی بَعْدَھا ٲَبَداً وَارْحَمْ تَضَرُّعِی وَعَبْرَتِی 
محمد(ص) و آل(ع) محمد(ص) پر رحمت فرما اور مجھ پر ایسی نظر فرما کہ اس کے بعد کبھی بد بختی میں نہ پڑوںمیرے آہ و نالہ اور میری بے کسی پر رحم فرما کہ 
وَانْفِرادِی، فَقَدْ رَجَوْتُ رِضاکَ، وَتَحَرَّیْتُ الْخَیْرَ الَّذِی لاَ یُعْطِیہِ ٲَحَدٌ سِواکَ، فَلاَ 
میں تیری رضا کی امید رکھتا ہوں اور اس بھلائی کا طالب ہوں جو سوائے تیرے کوئی نہیں عطا کرتا پس میری 
تَرُدَّ ٲَمَلِی ۔ اَللّٰھُمَّ إنْ تُعاقِبْ فَمَوْلیً لَہُ الْقُدْرَۃُ عَلی عَبْدِہِ وَجَزائِہِ بِسُوئِ فِعْلِہِ، فَلاَ 
آس نہ توڑ اے معبود ! اگر تو سزا دے تو وہ با اختیار مالک کی طرف سے اپنے غلام کی برائی کا بدلہ ہے پس آج مجھے محروم و ناکام نہ فرما 
ٲَخِیبَنَّ الْیَوْمَ، وَلا تَصْرِفْنِی بِغَیْرِ حَاجَتِی، وَلاَ تُخَیِّبَنَّ شُخُوصِی وَوِفادَتِی، فَقَدْ 
اور مجھ کو حاجت روائی کے بغیر نہ پلٹا میرے یہاں آنے اور حاضر ہو نے کو بیکار نہ بنا کیونکہ میں 
ٲَنْفَدْتُ نَفَقَتِی وَٲَتْعَبْتُ بَدَنِی وَقَطَعْتُ الْمَفازاتِ وَخَلَّفْتُ الْاََھْلَ وَالْمالَ وَمَا خَوَّلْتَنِی 
اپنا زاد راہ خرچ کر چکا تنگی و سختی اٹھائی اور بیابانوں میں سے گزرا ہوں میں اپنے اہل و عیال اور سامان 
وَآثَرْتُ مَا عِنْدَکَ عَلی نَفْسِی، وَلُذْتُ بِقَبْرِ عَمِّ نَبِیِّکَ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَآلِہِ،وَتَقَرَّبْتُ 
اور جو تو نے دیا پیچھے چھوڑ آیا اور اپنے لئے وہ پسند کیا جو تیرے قبضہ میں ہے اب تیرے نبی کے چچاکی قبرکی پناہ لئے ہوئے 
بِہِ ابْتِغائَ مَرْضاتِکَ فَعُدْ بِحِلْمِکَ عَلی جَھْلِی وَبِرَٲْفَتِکَ عَلی ذَ نْبِی
تیرا قرب چاہا اور اس کے ذریعے تیری رضائیں طلب کرتا ہوں پس اپنی نرمی کے ذریعے میری نادانی سے اور اپنی مہربانی کے سبب 
فَقَدْ عَظُمَ جُرْمِی بِرَحْمَتِکَ یَا کَرِیمُ یَا کَرِیمُ ۔
میرے گناہ سے درگزر کر کہ میرا جرم بہت بڑا ہے واسطہ ہے تیری رحمت کا اے مہربان اے مہربان ۔
مؤلف کہتے ہیں کہ جناب حمزہ (ع)کے اوصاف اور ان کی زیارت کی فضیلت بہت زیادہ ہے جو کہ بیان نہیں کی جاسکتی ۔فخر المحققین نے رسالہ فخریہ میں فرمایا :حضرت حمزہ(ع) اور أحد کے دیگر شہدائ کی زیارت کرنا مستحب ہے کیونکہ حضرت رسول (ص)سے روایت ہوئی ہے کہ فرمایا : جو شخص میری زیارت کرے اور میرے چچا حمزہ (ع)کی زیارت کو نہ جائے تو گویا اس نے مجھ پر ظلم کیا نیز اس حقیر نے’’ بیت الاحزان فی مصائب سیدۃ النسوان ‘‘میں نقل کیا ہے کہ حضرت رسول کے وصال کے بعد حضرت فاطمہ =ہر ہفتے میں پیر اور جمعرات کو حضرت حمزہ (ع)اور دیگر شہدائ أحد کی زیارت کو جاتیں وہاں نماز پڑھتیں اور دعا مانگتیں حتیٰ کہ اپنی وفات تک ایسا ہی کرتی رہیں محمود بن لبید نے بیان کیا کہ سیدہ جلیلہ حضرت حمزہ (ع)کی قبر کے سرہانے کھڑے ہو کر گریہ فرمایا کرتی تھیں ایک روز جو میں حضرت حمزہ (ع)کی زیارت کو گیا تو میں نے دیکھا کہ وہ معظمہ حضرت حمزہ(ع) کی قبر پر گریہ کر رہیں ہیں۔ تب میں نے صبر سے کام لیا اور انکا گریہ تھم گیا میں انکے قریب ہوا اور سلام عرض کرنے کے بعد کہا: اے سیدہ نسواں! قسم بخدا آپ نے اپنے گریہ سے میرے دل کی رگیں کاٹ کر رکھ دیں ! بی بی نے فرمایا اے ابو عمر ! مجھے اسی طرح رونا چاہیے کہ مجھے کائنات کے بہترین باپ حضرت رسول کی وفات کا رنج پہنچا ہے ۔پھر فرمایا : ہائے خدا کے رسول سے ملنے کی آرزو اور یہ کہا :
اِذٰا مَاتَ یُوْماً مَیِتٌ قَلَّ ذِکْرُہُ 
وَذِکْرُ أَبٰی مُذْ مٰاتَ وَاﷲُ اَکْثَرُ
جب کوئی مر جاتا ہے تو اس کی یاد کم ہو جاتی ہے 
لیکن بخدا کہ وفات کے بعد میرے بابا کی یاد زیادہ ہے ۔
شیخ مفید نے فرمایا: حضرت رسول نے اپنی حیات میں حضرت حمزہ(ع) کی قبر کی زیارت کا حکم دیااور خود بھی آپ کی اور دیگر شہدائ أحد کی زیارت کرتے رہے ،آنحضرت (ص)کی وفات کے بعد سیدہ فاطمہ = حضرت حمزہ (ع)کی قبر پر جاتیں تھیں اور دوسرے مسلمان بھی آپ کی زیارت کرتے اور قبر پر حاضر ہوتے تھے ۔