سجدہ شکر کی کیفیت

سجدہ شکر کی کیفیت یہ ہے کہ اسے جس طرح بھی بجالایا جائے ، ادا ہو جاتا ہے اور احوط یہ ہے کہ انسان زمین پر ہو اور نماز کے سجدے کی مانند سات اعضا پر سجدہ کرے . نیز اپنی پیشانی اس چیز پر رکھے جس پر نماز میں پیشانی رکھنا صحیح ہوتا ہے، لیکن افضل یہ ہے کہ سجدہ نماز کے بر عکس ہاتھوں کو زمین پر دراز کر دے اور پیٹ کو زمین سے ملادے اور سنت ہے کہ پہلے پیشانی کو زمین پر رکھے پھر دائیں رخسار کو اس کے بعد بائیں رخسار کو زمین پر رکھے، پھر پیشانی کو دوبارہ زمین پر رکھے اور یہی وجہ ہے کہ اس سجدے کو شکر کے دو سجدے کہا جاتا ہے بظاہر یہ سجدہ ذکر کے بغیر بھی ادا ہو جاتا ہے لیکن سنت ہے کہ ذکر بھی کرے اور بہتر ہے کہ ان اذکار اور دعائوں کے ذریعے ذکر کیا جائے جو بعد میں نقل کی جائیں گی اور مستحب ہے کہ اس سجدے کو طول دیا جائے . چنانچہ منقول ہے کہ امام موسیٰ کاظم(ع) طلوع آفتاب کے بعد سجدے کو اس قدر طول دیتے کہ زوال آفتاب ہوجاتا اور عصر کے بعد سجدے کو اس قدر طول دیتے کہ مغرب کا وقت ہوجاتا ایک اور حدیث میں ہے کہ آنجناب(ع) دس سال تک روزانہ طلوع آفتاب سے زوال آفتاب تک سجدے میں رہا کرتے تھے . صحیح سند کے ساتھ منقول ہے کہ امام علی رضا (ع) اتنی اتنی دیر تک سجدے میں پڑے رہتے کہ مسجد کے سنگریزے آپ(ع) کے پسینے سے تر ہوجاتے . اور آپ(ع) اپنے دونوں رخسار زمین پر رکھے رہتے . رجال کشی میں مذکور ہے کہ فضل بن شاذان، ابن ابی عمیر کے پاس آئے تو وہ حالت سجدہ میں تھے اور انہوں نے اسے بہت طول دیا ، جب انہوں نے سجدے سے سر اٹھا یا تو ان کے اس سجدے کے طولانی ہونے کا ذکر کیا گیا تو ابن ابی عمیر نے کہا:اگر تم لوگ جمیل بن دراج کے سجود کو دیکھتے تو میرے سجدے کو طولانی نہ سمجھتے ، اس کے بعد کہا: ایک روز میں جمیل بن دراج کے پاس گیا تو انہوں نے بہت ہی طویل سجدہ کیا، جب انہوں نے سجدے سے سر اٹھایا تو میں نے کہا: آپ نے تو بہت ہی طویل سجدہ کیا ہے انہوں نے جواب دیا: اگر تم معروف بن خرتوذ کے سجدے کو دیکھتے تو میرے اس سجدے کو مختصر ہی سمجھتے. فضل بن شاذان ہی روایت کرتے ہیں کہ حسن بن علی بن فضال عبادت کے لیے صحرا میں چلے جاتے اور اپنے سجدے کو اتنا طول دیتے ہیں کہ صحرا کے پرندے کپڑا سمجھ کران کی پشت پر آن بیٹھتے، وحشی جانوران کے اردگرد چلتے پھرتے رہتے اور ان سے کسی قسم کی وحشت محسوس نہ کرتے . نیز روایت ہوئی ہے کہ علی بن مہزیار طلوع آفتاب کے ساتھ ہی سجدہ الٰہی میں چلے جاتے اور جب تک اپنے ایک ہزار ﴿مومن﴾بھائیوں کے لیے دعا نہ کر لیتے سجدے سے سر نہ اٹھاتے اور طویل سجدوں کی وجہ سے ان کی پیشانی پریوں محراب پڑچکے تھے جیسے اونٹ کے زانوئوں پر ہوتے ہیں . روایت ہوئی ہے کہ ابن ابی عمیر نماز فجر کے بعد سجدہ شکر میں سر رکھتے اور ظہر تک نہیں اٹھاتے تھے . افضل یہ ہے کہ سجدہ شکر تمام تعقیبات کے بعد اور نوافل سے پہلے کیا جائے ۔ اکثر علمائ کہتے ہیں کہ سجدہ شکر نماز مغرب کے نوافل کے بعد بجالایا جائے اور بعض دیگر علمائ کہتے ہیں کہ سجدہ شکر نوافل سے پہلے کیا جائے. ظاہراً دونوں صورتیں بہترہیں اور اس کا نوافل سے پہلے بجالانا افضل ہے . البتہ حمیری(رح) نے امام زمانہ عجل اﷲفرجہ سے روایت کی ہے کہ اگر دونوں طرح سے ادا کیا جائے تو شاید زیادہ بہتر ہو . اب رہ گئیں سجدہ شکر میں پڑھی جانے والی دعائیں تو وہ بہت زیادہ ہیں . ان میں سے چند ایک آسان ترین ہیں اور وہ یہ ہیں ۔
﴿۱﴾ معتبر سند کے ساتھ امام علی رضا (ع) سے منقول ہے کہ اگر تم چاہو تو سو مرتبہ کہا کرو شکراً شکراً اور چاہو تو سو مرتبہ کہا کرو عفواً عفواً اور عیون اخبار الرضا میں رجائ بن ابی ضحاک روایت کرتے ہیں کہ امام علی رضا (ع) خراسان میں جب نماز ظہر کی تعقیبات سے فارغ ہوتے تو سر سجدے میں رکھ کر سو مرتبہ کہے:شکراً ﷲ۔﴿خدا کا شکر ہے۔﴾اور جب عصر کی تعقیبات سے فارغ ہوتے تو سجدے میں سو مرتبہ کہے:حمداً ﷲ۔﴿خدا کی حمد ہے ﴾
﴿۲﴾ شیخ کلینی(رح) معتبر سند کے ساتھ امام جعفر صادق - سے روایت کرتے ہیں کہ بندہ اس وقت اپنے خدا کے زیادہ نزدیک ہوتا ہے جب وہ حالت سجدہ میں ہواور اسے پکارے پس جب سجدہ شکر میں جائے تو کہے :
یَارَبَّ الْاَرْبابِ، وَیَا مَلِکَ الْمُلُوکِ وَیَا سَیِّدَالسَّاداتِ وَیَا جَبَّارالْجَبابِرَۃِ وَیَا إلہَ الاَْلِھَۃِ 
اے پروردگاروں کے پروردگار! اے بادشاہوں کے بادشاہ !اے سرداروں کے سردار!اے جابروں کے جابراور اے معبودوں کے معبود! تو 
صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ
سرکار محمد(ص)و آل(ع) محمد(ص) پر رحمت فرما .
اب اپنی حاجات طلب کرے اور کہے :فَ إنِّی عَبْدُکَ ناصِیَتِی فِی قَبْضَتِکَ۔﴿بے شک میں تیرا بندہ ہوں میری مہار تیرے ہاتھ میں ہے .﴾ پھر جو دعا چاہے مانگے کہ خداعطا کرنے والا ہے اور کوئی بھی حاجت پوری کرنا اس کیلئے مشکل نہیں۔
﴿۳﴾ شیخ کلینی(رح) نے موثق سند کے ساتھ امام جعفر صادق - سے روایت کی ہے کہ آپ(ع) نے فرمایا کہ ایک رات میں نے سنا کہ میرے والد گرامی مسجد میں حالت سجدہ میں روتے ہوئے یہ دعا پڑھ رہے تھے:
سُبْحانَکَ اَللّٰھُمَّ ٲَنْت رَبِّی حَقّاً حَقّاً سَجَدْتُ لَکَ یَارَبِّ تَعَبُّداً وَرِقّاً اَللّٰھُمَّ إنَّ عَمَلِی ضَعِیفٌ
اے معبود تو پاک ہے تو میرا پکا سچا رب ہے یا رب میں نے تجھے عبادت وبندگی کیلئے سجدہ کیا ہے اے معبود بیشک میرا عمل کمزور ہے اے معبود اس
فَضاعِفْہُ لِی اَللّٰھُمَّ قِنِی عَذابَکَ یَوْمَ تَبْعَثُ عِبادَکَ، وَتُبْ عَلَیَّ إنَّکَ ٲَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِیمُ
دن اسے میرے لیے دگنا کردے مجھے اپنے عذاب سے بچانا جب تو لوگوں کو زندہ کریگااورمیری توبہ قبول فرما کہ بیشک تو بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے .
﴿۴﴾شیخ کلینی(رح)نے معتبر سند کیساتھ امام موسیٰ کاظم(ع) سے روایت کی ہے کہ آنجناب(ع) سجدے میں یہ دعا پڑھتے تھے۔
ٲَعُوذُ بِکَ مِنْ نَارٍ حَرُّھَالاَ یُطْفیٰ وَٲَعُوذُ بِکَ مِنْ نارٍ جَدِیدُہا لاَ یَبْلی وَٲَعُوذُ بِکَ
خدایا اس آگ سے تیری پناہ لیتا ہوںجوبجھے گی نہیں تیری پناہ لیتا ہوں اس آگ سے جو ہمیشہ نئی ہے پرانی نہ ہوگی تیری پناہ لیتا ہوں اس
مِنْ نارٍ عَطْشانُہا لاَ یُرْوی وَٲَعُوذُ بِکَ ٍ مِنْ نَارٍ مَسْلُوْبُھَا لَا ےُکْسیٰ
آگ سے جس میں پیا سے کبھی سیراب نہ ہونگے اور تیری پناہ لیتا ہوںاس آگ سے جس میں برہنوں کو لباس نہ ملے گا .
﴿۵﴾شیخ کلینی(رح)نے معتبر سند کے ساتھ روایت کی ہے کہ ایک شخص اما م جعفر صادق(ع) خدمت میں حاضر ہوا اور یہ شکایت کی کہ میری ایک ام ولد لونڈی ہے جو بیماررہتی ہے. حضرت نے فرمایا: اس سے کہو کہ ہر واجب نماز کے بعد سجدہ شکر میں یہ کہا کرے:
یَا رَؤُوفُ یَا رَحِیمُ یَارَبِّ یَا سَیِّدِی﴿اے مہربان اے رحم والے اے رب اے میرے سردار . ﴾پھر اپنی حاجات طلب کرے 
﴿۶﴾بہت ہی معتبر روایات میں منقول ہے کہ امام جعفر صادق(ع) اور امام موسیٰ کاظم(ع) سجدہ شکر میں بکثرت یہ کہا کرتے تھے ۔
ٲَسْٲَلُکَ الرَّاحَۃَ عِنْدَ الْمَوْتِ وَالْعَفْوَ عِنْدَ الْحِسابِ۔
خدایا میں تجھ سے موت کے وقت راحت اور حساب کے وقت درگزر کاسوالی ہوں .
﴿۷﴾صحیح سند کیساتھ منقول ہے کہ امام جعفر صادق(ع) سجدہ شکر میں یہ کہا کرتے تھے۔
سَجَدَ وَجْھِیَ اللَّئِیمُ لِوَجْہِ رَبِّیَ الْکَرِیمِ۔
میرے پست چہرے نے تیری کریم ذات کو سجدہ کیا ہے 
﴿۸﴾ بعض معتبر کتابوں میں امیر المومنین- سے مروی ہے کہ اﷲ کے نزدیک بہترین کلام یہ ہے کہ سجدے میں تین مرتبہ کہیں:
إنِّی ظَلَمْتُ نَفْسِی فَاغْفِرْ لِی۔
یقیناً میں نے خود پر ظلم کیا ہے پس مجھے بخش دے .
﴿۹﴾ جعفریات ﴿مجموعہ اقوال حضرت امام جعفر صادق -﴾ میں صحیح سند کے ساتھ مروی ہے کہ رسول (ص)خدا جب سجدے میں سر رکھتے تو یہ دعا پڑھتے تھے: 
اَللّٰھُمَّ مَغْفِرَتُکَ ٲَوْسَعُ مِنْ ذُنُوبِی وَرَحْمَتُکَ ٲَرْجَی عِنْدِی مِنْ عَمَلِی فَاغْفِرْ لِی 
اے معبود! تیری بخشش میرے گناہوں سے زیادہ وسیع ہے اور تیری رحمت میرے عمل کی نسبت زیادہ امید افزا ہے پس میرے
ذُنُوبِی یَا حَیّاً لاَ یَمُوتُ۔
گناہ بخش دے اے وہ زندہ جو مرے گا نہیں 
﴿۰۱﴾ قطب راوندی نے امام جعفر صادق - سے روایت کی ہے کہ جب تمہیں کوئی سخت مصیبت درپیش ہویا انتہائی غم و اندوہ لاحق ہوتو زمین پر سجدے میں جاکر کہو :
یَا مُذِلَّ کُلِّ جَبَّارٍ یَا مُعِزَّکُلِّ ذَلِیلٍ، قَدْ وَحَقِّکَ بَلَغَ مَجْھُودِی فَصَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ وَآلِ
اے ہر جبار کو ذلیل کرنے والے ہرذلیل کو عزت دینے والے تیرے حق کی قسم کہ میں بے بس ہوگیا پس تومحمد(ص) و آل(ع) 
مُحَمَّدوَفَرِّجْ عَنِّی۔
محمد(ص)پر رحمت نازل فرما اور مجھے کشادگی عطا فرما .
عدۃ الداعی میں آپ(ع) ہی سے روایت ہے کہ جب کسی شخص کو کوئی مصیبت آپڑے یا کوئی مشکل پیش آجائے یا کوئی رنج و غم پریشان کرنے لگے تو وہ اپنے گھٹنوں تک اور کہنیوں تک کپڑا ہٹائے اور ان کو زمین پر لگادے اپنا سینہ زمین سے لگا دے اور خدا سے اپنی حاجات طلب کرے۔
﴿۱۱﴾ ابن بابویہ(رح) نے معتبر سند کے ساتھ امام جعفر صادق(ع) سے روایت کی ہے کہ جب بندہ سجدے میں تین مرتبہ یہ کہے :
یَا اﷲُ یَا رَبّاھُ یَا سَیِّداھُ﴿اے اﷲ اے پروردگار اے سردار ﴾ تو خدا تعالیٰ جواب میں کہتا ہے لبیک ﴿ہاں﴾ اے میرے بندے مجھ سے اپنی حاجات بیان کر ۔مکارم الاخلاق میں ہے کہ جب کوئی شخص سجدے میں ۔یَا رَبَّاھُ یَا سَیِّداھُ ﴿اے پروردگار اے سردار .﴾ کہتا ہے یہاں تک کہ اس کی سانس رک جائے تو خدا فرماتا ہے کہ اے بندے اپنی حاجات بیان کر ۔
﴿12﴾مکارم الاخلاق میں امام جعفر صادق - سے روایت ہے کہ رسول خدا کا گزر ایک شخص کے پاس سے ہوا جو سجدے میں کہہ رہا تھا۔ 
یَارَبِّ مَاذا عَلَیْکَ ٲَنْ تُرْضِیَ عَنِّی کُلَّ مَنْ کانَ لَہُ عِنْدِی تَبِعَۃٌ، وَٲَنْ تَغْفِرَ لِی ذُنُوبِی 
اے پروردگارتجھے کیا فرق پڑے گاکہ تو ہر ایسے شخص کو مجھ سے راضی کردے جس کا کوئی حق میرے ذمہ ہے اور یہ کہ تو میرے گناہ معاف کر 
وَٲَنْ تُدْخِلَنِی الْجَنَّۃَ بِرَحْمَتِکَ فَ إنَّمَا عَفْوُکَ عَنِ الظَّالِمِینَ، وَٲَنَا مِنَ الظَّالِمِینَ،
دے اور اپنی رحمت سے مجھ کو جنت میں داخل کر دے کیونکہ یقینا تو ظالموں کو معاف کرتا ہے اور میں بھی ظالموںمیں سے ہوں تو تیریرحمت مجھ
فَلْتَسَعْنِی رَحْمَتُکَ یَا ٲَرْحَمَ الرَّاحِمِینَ۔
پر چھا جائے اے سب سے زیادہ رحم کرنے والے ۔
اس وقت آنحضرت(ص) نے اس شخص سے فرمایا کہ اپنا سر اٹھا لو کہ تمہاری دعا قبول ہو گئی ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ تم نے اس پیغمبر(ص) کی دعا پڑھی ہے جو قوم عاد میں آئے تھے . مؤلف کہتے ہیں :ہم نے مسجد کوفہ اور مسجد زید کے اعمال میں بعض دعائیں نقل کی ہیں جو سجدے میں پڑھی جاتی ہیں۔ شیخ طوسی(رح) نے مصباح المتہجد میں سجدہ شکر کے بیان میں ذکر کیا ہے، مستحب ہے کہ انسان اپنے بھائیوں کے لیے سجدے میں یہ دعا پڑھے:
اَللّٰھُمَّ رَبَّ الْفَجْرِوَاللَّیَالِی الْعَشْرِ وَالشَّفْعِ وَالْوَتْرِ وَاللَّیْلِ إذا یَسْرِ وَرَبَّ کُلِّ شَیْئٍ وَ إلہَ
اے معبود ! ایک فجر،دس راتوں شفع، وتر اور رات کے پروردگار جب وہ گزر جائے اے ہر چیز کے پروردگار، اے ہر 
کُلِّ شَیْئٍ وَخَالِقَ کُلِّ شَیْئٍ، وَمَلِکَ کُلِّ شَیْئٍ صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ وَآلِہِ، وَافْعَلْ بِی و
چیز کے معبود اے ہر چیز کے پیدا کرنے والے اور اے ہر چیز کے مالک!سرکار محمد(ص) و آل(ع) محمد(ص) پررحمت نازل فرما اور میرے ساتھ اور
َبِفُلانٍ وَفُلانٍ مَا ٲَنْتَ ٲَھْلُہُ وَلاَ تَفْعَلْ بِنَا مَا نَحْنُ ٲَھْلُہُ فَ إنَّکَ ٲَھْلُ التَّقْوَی وَٲَھْلُ الْمَغْفِرَۃِ
فلاں فلاں کے ساتھ وہ برتائو کر جس کا تو اہل ہے اور ہمارے ساتھ وہ برتائو نہ کر جس کے ہم اہل ہیں کیونکہ یقیناً تو بچانے اور بخش دینے کا اہل ہے ۔
جب سر سجدے سے اٹھاے تو اپنے ہاتھوں کو مقام سجدہ سے مس کرے اور پھر انہیں اپنے چہرے کے بائیں طرف پھیرے ، پھر پیشانی پر اور پھر چہرے کی دائیں طرف تین مرتبہ پھیرے اور ہر بار یہ دعا پڑھے :
اَللّٰھُمَّ لَکَ الْحَمْدُ لاَ إلہَ إلاَّ ٲَنْتَ، عَالِمُ الْغَیْب وَالشَّہادَۃِ الرَّحْمنُ الرَّحِیمُ اَللّٰھُمَّ 
اے معبود حمد تیرے ہی لیے ہے تیرے سوا کوئی معبود نہیں تو ہی حاضر و غائب کا جاننے والا بڑے رحم والا مہربان ہے
ٲَذْھِبْ عَنِّی الھَمَّ وَالْحَزَنَ وَالْغِیَرَ وَالْفِتَنَ مَا ظَھَرَ مِنْہا وَمَا بَطَنَ۔
اے معبود! مجھ سے ہر طرح کی ایذا یعنی غم تکلیفیں اوربلائیں دور کر دے خوہ اوہ ظاہر یاہیں باطن ہیں .