اٹھائیسواں امر

رسول اﷲ نے فرمایاجو شخص کسی یہودی یا عیسائی مجوسی کو دیکھے وہ یہ دعاپڑھے تو اﷲتعالی اسے اور اس کافر کو جہنم میں اکٹھے نہیں کرے گا۔
الْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِی
حمد ہے اﷲ کے لئے جس نے مجھے 
فَضَّلَنِی عَلَیْکَ بِالْاِسْلامِ 
تجھ پر فضیلت دی دین اسلام کے 
دِیناً وَبِالْقُرْآنِ کِتاباً
ساتھ کتاب قرآن کے ساتھ 
وَبِمُحَمَّدٍ نَبِیّاً وَبِعَلِیٍّ
پیغمبرمحمد(ص) کے ساتھ علی (ع)ایسے امام(ع) 
إماما،ً وَبِالْمُؤْمِنِینَ
کے ساتھ مومنوں کی برادری کے 
إخْوانا وَبِالْکَعْبَۃِ قِبْلَۃً
ساتھ اور کعبہ ایسے قبلہ کے ساتھ۔
مؤلف کہتے ہیں بہت سی آیات وروایات کے ذریعے سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں کو چاہیے کہ کفار کے ساتھ محبت اور مشابہت پیدا نہ کریں اور نہ ہی ان کی روش کو اپنائیں اﷲ تعالیٰ نے فرمایا۔
قَدْ کَانَ لَکُمْ ٲُسْوَۃٌ
جیسا کہ اﷲ تعالی کا فرمان ہے ضرور 
حَسَنَۃٌ فِی إبْرَاہِیمَ
تمہارے لیے ابراہیم(ع) اور ان کے 
وَالَّذِینَ مَعَہُ إذْ قَالُوا
ساتھیوں کے کردار میں بہترین نمونہ 
لِقَوْمِہِمْ إنَّا بُرَأٰٓؤُا مِنْکُمْ
عمل ہے جب انہوں نے اپنی قوم سے کہا کہ
وَمِمَّا تَعْبُدُونَ مِنْ
ہم تم لوگوں سے بری ہیں اور خدا کے
دُونِ اﷲِ وَبَدَا بَیْنَنا
علاوہ جن کی تم عبادت کرتے ہو اور 
وَبَیْنَکُمُ الْعَدَاوَۃُ 
ہمارے تمہارے درمیان ہمیشہ کی 
وَالْبَغْضَائُ ٲَبَداً۔
عداوت اور دشمنی ظاہر ہو چکی ہے۔
شیخ صدوق (رح)نے امام جعفر صادق - سے روایت کی ہے کہ ایک نبی (ع)کی طرف یہ وحی آئی کہ اے نبی مومنوں سے کہہ دو کہ میرے دشمنوں کا جیسا لباس نہ پہنو میرے دشمنوں جیسی خوراک نہ کھاؤ اور میرے دشمنوں کی روش پر نہ چلو ورنہ تم لوگ بھی میرے دشمن تصور کیے جاؤ گے جیسے وہ میرے دشمن ہیں اسی وجہ سے بہت سی روایتوں میں مذکور ہے کہ فلاں عمل کو بجا لاؤاور خود کو کفار کے مشا بہ نہ کرومثلا وہ روایت جو حضرت رسول اﷲ (ص)سے منقول ہے کہ آپ(ص) نے فرمایا مونچھیں منڈواؤ اور داڑھی بڑھاؤ بس خود کو یہود ونصاری کے مشابہ نہ بناؤ کیونکہ نصاری اپنی داڑھیوں کو منڈواتے ہیں اور مونچھوں کو بڑھاتے ہیں جب کہ ہم داڑھی کو بڑھاتے اور مونچھوں کو کٹواتے ہیں چنانچہ جب حضرت رسول اﷲ کے تبلیغی مکتوب مختلف ملکوں کے بادشاہوں کو موصول ہوئے تو کسریٰ ﴿شاہ ایران﴾نے یمن میں اپنے گورنرباذان کو حکم بھیجا کہ وہ آنحضرت (ص) کو اس کے پاس روانہ کردے تب اس نے اپنے کاتب ۔بانویہ۔ اور ایک دوسرے شخص ۔خر۔خسک۔ کو مدینہ روانہ کیا ان دونوں نے داڑھیاں منڈوائی اور مونچھیں بڑھائی ہوئی تھیں ان کی یہ حالت آنحضرت (ص) کو نہایت ناگوار گزری اور آپ (ص) نے انہیں دیکھنا بھی گوارا نہ کیا آپ(ص)نے ان سے فرمایا: افسوس ہے تم پر کس نے تمہیں ایسا کرنے کا حکم دیا؟ انہوں نے کہا ہمارے رب یعنی کسریٰ نے اس پر آپ(ص) نے فرمایا لیکن میرے رب ﴿پروردگار﴾ نے مجھے داڑھی رکھنے اور مونچھیں کاٹنے کاحکم دیا ہے نیز یہ بھی یاد رکھنا چاہیئے کہ اﷲ تعالی نے سورہ ہود میں فرمایا۔
وَلا تَرْکَنُوا إلَی الَّذیِنَ
ظالموں کی طرف میلان پیدا نہ کرو 
ظَلَمُوا َتَمَسَّکُمُ النَّارُ
ورنہ جہنم کی آگ تمہیں لپیٹ میں 
وَمَا لَکُمْ مِنْ دُونِ اﷲِ
لے گی اور خدا کے علاوہ تمہارا کوئی 
مِنْ ٲَوْلِیَائَ ثُمَّ لاَ
مدد گار نہ ہوگااور پھر تمہاری مدد نہ کی 
تُنْصَرُونَ۔
جائے گی ۔ 
اس آیت کی تفسیر میں مفسرین کا کہنا ہے کہ ظالموں کی طرف تھوڑا ساجھکاؤبھی پیدا نہ کرو چہ جا ئیکہ بہت سارا جھکاؤ پیدا کیا جائے کیونکہ اس سے جہنم کی آگ تمہیں اپنی لپیٹ میں لے لے گی بعض مفسرین کا قول ہے کہ جس قسم کے جھکاؤ سے روکا گیا ہے وہ ظالموں کے ظلم میں شریک ہونا ان کاموں میں راضی اور ان سے محبت کااظہار کرنا ہے روایات اہل بیت (ع)میں وارد ہے کہ ۔رکون۔ سے مرادان کے ساتھ محبت کرنا‘ان کی خیر خواہی اور ان کی اطاعت کرنا ہے :