تشیع جنازہ اور دفن میت

اور سنت ہے کہ جب تک وہاں سے جنازہ نہ اٹھایا جائے خاص کر پیش نماز اور دوسرے لوگ بھی اسی جگہ کھڑے رہیں ایک اور روایت میں ہے کہ نماز سے فارغ ہونے کے بعد کہے:

رَبَّنا آتِنا فِی الدُّنْیا
اے ہمارے رب! ہمیں دنیا میں 
حَسَنَۃً وَفِی الْاَخِرَۃِ
نیکی عطا کر اور آخرت میں بھی نیکی 
حَسَنَۃً وَقِنَا عَذابَ
عطا کر اورہمیں جہنم کے عذاب 
النَّارِ۔
سے بچا۔
امام جعفر صادق - فرماتے ہیں: بہتر ہے کہ مرحوم کی خبر مرگ مومن بھائیوں کو دی جائے تا کہ وہ اس کے جنازے میں شریک ہوں ، اس پر نماز پڑھیں اس کے لیے استغفار کریں اور میت کو اور ان کو بھی ثواب ملے. ایک حسن حدیث میں امام جعفر صادق - سے منقول ہے کہ جب مومن کو قبر میں لٹاتے ہیں تو اسے آواز آتی ہے کہ سب سے پہلی عطا جو ہم نے تم پر کی ہے وہ بہشت ہے اور جو لوگ تیرے جنازے کے ساتھ آئے ہیں ان پر ہم نے سب سے پہلی عطا یہ کی ہے کہ ان کے گناہ معاف کر دیئے ہیں۔
ایک اور حدیث میں آپ(ع) فرماتے ہیں کہ مومن کو قبر میں جو سب سے پہلا تحفہ دیا جاتا ہے ، وہ یہ ہے کہ اس کے ساتھ آنے والے تمام لوگوں کے گناہ بخش دیئے جاتے ہیں . ایک اور حدیث میں فرماتے ہیں جو شخص کس مومن کے جنازے کے ہمراہ جاتا اور اس کے دفن تک وہاں رہتا ہے تو خداوند تعالیٰ قیامت کے دن ستر ملائکہ کو حکم دے گا کہ وہ قبر سے اٹھائے جانے سے حساب کے موقع تک اس کے ساتھ رہ کر اس کے لیے استغفار کرتے رہیں۔ نیز فرماتے ہیں :جو شخص جنازے کے ایک کونے کو کندھا دے گا تو اس کے پچیس کبیرہ گناہ معاف کر دیئے جائیں گے اور جو شخص ﴿بہ ترتیب﴾ چاروں کونوں کو کندھا دے گا تو وہ گناہوں سے بری ہوجائے گا۔ جنازے کو چار افراد اٹھائیں اور جو شخص جنازے کے ساتھ ہو اس کے لیے بہتر یہ ہے کہ سب سے پہلے میت کے داہنے ہاتھ کی طرف آئے جو جنازے کا بایاں پہلو ہے وہاں اپنا دایاں کندھا دے پھر میت کے دائیں پائوں کی طرف آکر کندھا دے، اس کے بعد میت کے بائیں ہاتھ کی طرف آئے جو جنازے کا دایاں پہلو ہے، وہاں بایاں کندھا دے اور میت کے بائیں پائوں کی طرف آئے اور آکر اس کونے کو بائیں کندھے پر اٹھائے۔
اگر وہ دوسری مرتبہ چاروں اطراف کو کندھا دینا چاہے تو جنازے کے آگے سے پیچھے کی طرف آئے اور مذکورہ طریقے سے اسے کندھا دے اکثر علمائ اس کے برعکس فرماتے ہیں کہ جنازے کے داہنی طرف سے ابتدا کرے یعنی میت کے دائیں طرف سے کندھا دے۔
لیکن معتبر احادیث کے مطابق پہلا طریقہ اچھا ہے اور اگر دونوں طریقوں سے جنازے کو کندھا دے تو بہت بہتر ہے جنازے کے ساتھ چلنے میں افضل طریقہ یہ ہے کہ جنازے کے پیچھے چلے یا اسکے دائیں بائیں رہے، لیکن جنازے کے آگے ہرگز نہ چلے، اکثر حدیثوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ اگر وہ جنازہ مومن کا ہوتو اس کے آگے چلنا بہتر ہے ورنہ پیچھے چلنا ہی مناسب ہے کیونکہ ملائکہ اس کیلئے عذاب لے کر آگے سے آتے ہیں جنازے کے ساتھ سوار ہوکر چلنا مکروہ ہے اور رسول اﷲ کا ارشاد ہے کہ جو شخص کسی جنازے کو دیکھے وہ یہ دعا پڑھے:
اﷲُ ٲَکْبَرُ ہذَا مَا وَعَدَنَا
اﷲ بزرگ تر ہے یہی وہ چیز ہے جس کا 
اﷲُ وَرَسُولُہُ وَصَدَقَ 
اﷲ و رسول(ص) نے ہم سے وعدہ کیا اﷲ
اﷲُ وَرَسُولُہُ، اَللّٰہُمَّ 
اور اسکے رسول(ص)نے سچ فرمایا اے معبود! 
زِدْنا إیماناً وَتَسْلِیماً
ہمارے ایمان و تسلیم میں اضافہ کر 
الْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِی تَعَزَّزَ 
حمد ہے اﷲ کے لیے جو اپنی قدرت 
بِالْقُدْرَۃِ وَقَہَرَ الْعِبادَ 
سے غالب ہوا اور موت کے ذریعے 
بِالْمَوْت۔
بندوں پر حاوی ہوا۔
کوئی فرشتہ آسمان میں نہیں مگر یہ کہ وہ گریہ کرے گا اور پڑھنے والے کے لیے رحمت چاہے گا۔
امام جعفر صادق - فرماتے ہیں کہ جنازہ اٹھاتے وقت یہ دعا پڑھی جائے:
ِبِسْمِ اﷲِ وَبِاﷲِ اَللّٰہُمَّ 
خدا کے نام سے خدا کی ذات سے اے معبود
صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ 
رحمت فرما محمد(ص)(ص) 
وَآلِ مُحَمَّدٍ وَاغْفِرْ
و آل(ع) محمد(ص) پر اور مومن مردوں 
لِلْمُؤْمِنِینَ وَالْمُؤْمِناتِ
اور مومنہ عورتوں کو بخش دے ‘‘. 
منقول ہے کہ امام زین العابدین- جب کسی جنازے کو دیکھتے تو یہ دعا پڑھتے:
الْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِی لَمْ 
حمد ہے اﷲ کے لیے جس نے 
یَجْعَلَنِی مِنَ السَّوادِ
مجھے ہلاک ہونے والے گروہ 
الْمُخْتَرَمِ۔
میں نہیں رکھا ۔
عورتوں کے لیے جنازے کے ساتھ جانا سنت نہیں ہے، بعض علمائ کا قول ہے کہ جنازے کو تیز رفتاری کے ساتھ لے جانا مکروہ ہے اور جو لوگ جنازے کے ساتھ ہوں ان کے لیے ہنسنا اور فضول باتیں کرنا بھی مکروہ ہے۔
علامہ مجلسی(رح) حلیۃ المتقین میں لکھتے ہیں حضرت رسول(ص) سے منقول ہے کہ جو شخص کسی کی نماز جنازہ پڑھتا ہے اس پر ستر ہزار فرشتے نماز پڑھیں گے اور اس کے تمام سابقہ گناہ معاف ہوجائیں گے اگر جنازے کے ہمراہ جائے اور اس کی تدفین تک وہاں رہے تو اس کے ہر قدم کے بدلے اسے ایک قیراط ثواب دیا جائے گا اور یہ قیراط کوہ احد کے برابر ہوتا ہے۔
ایک اور حدیث میں ارشاد فرماتے ہیں جو بھی مومن کسی کی نماز جنازہ پڑھے گا تو جنت اس کے لیے واجب ہوجائے گی، بشرطیکہ وہ منافق یا والدین کا نافرمان نہ ہو. معتبر سند کے ساتھ امام جعفر صادق - سے منقول ہے کہ جب کوئی مومن مرتا ہے اور اس کے جنازے پر آکر چالیس مومن یہ کہتے ہیں:
اَللّٰھُمَّ اِنَّا لَا نَعْلَمُ مِنْہُ 
یعنی اے معبود! ہم اس کے متعلق 
اِلَّاخَیْراً وَ اَنْتَ اَعْلَمُ
سوائے نیکی کے کچھ نہیں جانتے اور 
بِہِِ مِنَّا.
تو اسے ہم سے زیادہ جانتا ہے۔
تب خدائے تعالیٰ فرماتا ہے میں نے تمہاری گواہی قبول کر لی اور اس کے گناہ معاف کر دیئے ہیں جن کو تم نہیں جانتے ہو اور میں جانتا ہوں۔
ایک اور معتبر حدیث میں رسول اﷲ سے منقول ہے کہ مومن کے مرنے کے بعد وہ پہلی چیز جو اس کے نامہ اعمال میں لکھتے ہیں وہ وہی ہوتی ہے جو بات لوگ اس کے بارے میں کہتے ہیں . اگر نیک بات کہتے ہیں تو نیکی لکھی جاتی ہے اور اگر بری بات کہتے ہیں تو برائی لکھی جاتی ہے۔
مولف کہتے ہیں: شیخ طوسی(رح) مصباح المتہجد میں فرماتے ہیں: مستحب ہے کہ جنازے کی تربیع کی جائے یعنی پہلے میت کے دائیں طرف کندھا دیا جائے اس کے بعد دائیں پاؤں کی طرف پھر بائیں پائوں کی طرف اور بعد میں میت کے بائیں ہاتھ کی طرف سے کندھا دیا جائے گویا جنازے کے چاروں اطراف کو اس طرح کندھا دیا جائے جس طرح چکی کو گھمایا جاتا ہے جب جنازے کو قبر کے نزدیک لائیں تو اگر میت مرد کی ہے تو اسے قبر کی پائنتی کی طرف لے جائیں اور قبر کے کنارے تک لے جاتے ہوئے تین مرتبہ اٹھائیں اور زمین پر رکھیں . پھر قبر میں اتاریں، اگر میت عورت کی ہے تو اسے قبر کے کنارے قبلہ کی طرف لائیں پھر قبر میں اتاریں میت کا وارث یا کوئی اور شخص جس کو ولی نے اجازت دی ہو کہ وہ پائنتی کی طرف سے قبر میں اترے کہ یہی قبر کا دروازہ ہے اور جب وہ قبر میں اتر جائے تو یہ کہے:’’
اَللّٰہُمَّ اجْعَلْہا رَوْضَۃً
اے معبود! تو اسے جنت کے 
مِنْ رِیاضِ الْجَنَّۃِ وَلاَ
باغوں میں ایک باغ بنادے اور 
تَجْعَلْہا حُفْرَۃً مِنْ
اسے جہنم کے گڑھوں میں سے 
حُفَرِ النَّارِ۔
ایک گڑھا نہ بنا۔
اور مناسب ہے کہ قبر میں اتر نے والا وہ شخص سراور پائوں سے ننگاہو اور اپنے بٹن کھول دے وہ میت کو قبر میں اتار نے کے لیے اٹھائے اور سر کی طرف اسے قبر میں لے جائے اور یہ کہے:
بِسْمِ اﷲِ وَبِاﷲِ وَفِی
اﷲ کے نام اور اﷲ کی ذات سے، 
سَبِیلِ اﷲِ وَعَلَی مِلَّۃِ 
اﷲ کی راہ میں اور رسول(ص)اﷲ کے 
رَسُولِ اﷲِ۔ اَللّٰہُمَّ 
دین پر. اے معبود! تجھ 
إیماناً بِکَ وَتصْدِیقاً 
پر ایمان اور تیری کتاب کی تصدیق
بِکِتابِکَ ہذَا مَا وَعَدَنَا
کرتے ہوئے، یہی چیز ہے جس کا اﷲ 
اﷲُ وَرَسُولُہُ وَصَدَقَ
و رسول(ص)نے ہم سے وعدہ کیا اور اﷲ 
اﷲُ وَرَسُولُہُ اَللّٰہُمَّ 
اور اسکے رسول(ص)نے سچ فرمایا. اے معبود!
زِدْنا إیماناً وَتَسْلِیماً۔
ہمارے ایمان و یقین میں اضافہ فرما۔
پس میت کو داہنی کروٹ پر لٹادے. اس کے بدن کا رخ قبلہ کی طرف کر کے کفن کے بند کھول دے اور اس کے رخسارے کو زمین پر ٹکادے مستحب ہے کہ اس کے ساتھ خاک شفا بھی رکھے اور پھر قبر پر اینٹیں چن دے اور اینٹیں چننے والا شخص یہ پڑھے:
اَللّٰہُمَّ صِلْ وَحْدَتَہُ، 
اے معبود! اس کی تنہائی کا ساتھی رہ 
وَآنِسْ وَحْشَتَہُ وَارْحَمْ 
خوف میں ہمدم بن اور اس کی بے 
غُرْبَتَہُ وَٲَسْکِنْ إلَیْہِ 
کسی پر رحم فرما اپنی رحمتوں سے 
مِنْ رَحْمَتِکَ رَحْمَۃً 
خاص رحمت اس کے ساتھ کر دے، 
یَسْتَغْنِی بِہا عَنْ رَحْمَۃِ 
اس کے ذریعے اسے اپنے غیر
مَنْ سِواکَ وَاحْشُرْہُ 
کی رحمت سے بے نیاز کر دے 
مَعَ مَنْ کانَ یَتَوَلاَّہُ
اس کو پاک ائمہ کے ساتھ محشور
مِنَ الْاََئِمَّۃِ الطَّاہِرِینَ۔
فرما جن سے وہ محبت رکھتا تھا ۔