دیگر نماز حاجت

اسے شیخ مفید (رح)،شیخ طوسی (رح) اور سید ابن طائوس (رح) جیسے بہت سے بزرگ علمائ نے حضرت امام جعفر صادق - سے نقل کیا ہے ۔
چنانچہ سید ابن طائوس (رح) کی روایت کے مطابق اس کی کیفیت یوں ہے کہ جب تمہیںکوئی مشکل در پیش ہو اور اس میں خدا کی مدد مطلوب ہو تو مسلسل تین دن یعنی بدھ جمعرات جمعہ کے روزے رکھو، جمعہ کے روز غسل کرو پاک وپاکیزہ لباس پہنو اور گھر کی سب سے اونچی چھت پر جاکر دو رکعت نماز بجا لائو اور پھر ہاتھ آسمان کی طرف بلند کر کے کہو:
اَللّٰھُمَّ إنِّی حَلَلْتُ
اے معبود میں یقینا تیری 
بِساحَتِکَ لِمَعْرِفَتِی 
بارگاہ میں حاضر ہوں کہ تیری 
بِوَحْدانِیَّتِکَ
وحدانیت اور تیری 
وَصَمَدانِیَّتِکَ
بے نیازی کو جانتا ہوں اور یہ 
وَٲَنَّہُ لاَ قادِراً عَلَی قَضائِ 
بھی کہ تیرے علاوہ کوئی میری 
حاجَتِی غَیْرُکَ وَقَدْ 
حاجت بر آہی نہیں کر سکتا اور اے 
عَلِمْتُ یَارَبِّ ٲَنَّہُ کُلَّما 
پروردگار میں جانتا ہوں کہ جوں 
تَظاھَرَتْ نِعْمَتُکَ
جوں تیری نعمتیں بڑھتی ہیں تیری 
عَلَیَّ اشْتَدَّتْ فاقَتِی 
طرف میری احتیاج بڑھتی جاتی 
إلَیْکَ وَقَدْ طَرَقَنِی
ہے اب مجھے یہ اور یہ مشکل آن 
ھَمُّ کَذا وَکَذا 
پڑی ہے ۔
کذ کذا کی جگہ اپنی حاجات بیان کرو اور پھر کہو :
وَٲَنْتَ بِکَشْفِہِ عالِمٌ 
اور تو اسے پورا کرنا جانتا ہے بتانے 
غَیْرُ مُعَلَّمٍ واسِعٌ غَیْرُ 
کی ضرورت نہیں تو وسعت رکھتا 
مُتَکَلِّفٍ، فَٲَسْٲَلُکَ
ہے تجھے زحمت نہیں پس سوا ل کرتا 
بِاسْمِکَ الَّذِی وَضَعْتَہُ 
ہوں تیرے نام کے واسطے سے کہ 
عَلَی الْجِبالِ فَنُسِفَتْ
جسے تو پہاڑوں پر رکھے تو ریزہ ریزہ 
وَوَضَعْتَہُ عَلَی السَّمٰوَاتِ 
ہوجائیں آسمانوں پر رکھے تو پاش 
فَانْشَقَّتْ وَعَلَی النُّجُومِ 
پاش ہو جائیں ستاروں پر رکھے
فَانْتَشَرَتْ، وَعَلَی
توگرنے لگ جائیں زمین پر رکھے 
الْاَرْضِ فَسُطِحَتْ
تو چٹیل ہو جائے سوال کرتا ہوں 
وَٲَسْٲَلُکَ بِالْحَقِّ الَّذِی
اس حق کے واسطے سے جسے تو نے 
جَعَلْتَہُ عِنْدَ مُحَمَّدٍ
قرار دیا ہے حضرت محمد مصطفی 
صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَآلِہِ 
صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم 
وَعِنْدَ عَلِیٍّ وَالْحَسَنِ 
اور حضرت علی (ع)، حضرت حسن(ع)،
وَالْحُسَیْنِ وَعَلِیٍّ
حضرت حسین(ع)، حضرت علی(ع)، 
وَمُحَمَّدٍ وَجَعْفَرٍ 
حضرت محمد (ع)، حضرت جعفر (ع)،
وَمُوسی وَعَلِیٍّ
حضرت موسیٰ (ع)، حضرت علی (ع)،
وَمُحَمَّدٍ وَعَلِیٍّ وَالْحَسَنِ 
حضرت محمد (ع)، حضرت علی (ع)،حضرت حسن (ع)
وَالْحُجَّۃِ عَلَیْھِمُ اَلسَّلاَمُ 
اور حضرت حجت کے ساتھ
ٲَنْ تُصَلِّیَ عَلَی مُحَمَّدٍ 
یہ کہ تو رحمت فرما محمد - اور ان کی 
وَٲَھْلِ بَیْتِہِ وَٲَنْ تَقْضِیَ 
اہلبیت - پر اور یہ کہ میری حاجت 
لِی حاجَتِی، وَتُیَسِّرَ 
پوری کر جو مشکل ہے آسان فرما 
لِی عَسِیرَہا وَتَکْفِیَنِی 
اور سختیوں میں مدد کر 
مُھِمَّہا، فَ إنْ فَعَلْتَ 
پس اگر تو ایسا کرے
فَلَکَ الْحَمْدُ وَ إنْ لَمْ 
تو تیرے لئے حمد ہے اور نہ کرے
تَفْعَلْ فَلَکَ الْحَمْدُ غَیْرَ 
تو بھی تیرے لئے حمد ہے کہ تیرے 
جائِرٍ فِی حُکْمِکَ وَلاَ 
فیصلے میں ظلم کا گزر نہیں تیری قضائ 
مُتَّھَمٍ فِی قَضائِکَ وَلاَ 
میں غلطی نہیں اور تیرے عدل میں 
حائِفٍ فِی عَدْلِکَ۔
خامی نہیں ہے۔
پھر اپنے رخسار کو زمین پر رکھ کر کہو:
اَللّٰھُمَّ إنَّ یُونُسَ بْنَ
اے معبود بے شک تیرے بندے 
مَتَّی عَبْدَکَ دَعاکَ فِی 
یونس (ع)بن متی نے مچھلی کے پیٹ 
بَطْنِ الْحُوتِ وَھُوَ
میں تجھ کو پکار ا تھا وہ تیرا بندہ تھا پس 
عَبْدُکَ فَاسْتَجَبْتَ لَہُ
تو نے اس کی دعا قبول فرمائی اور 
وَٲَنَا عَبْدُکَ ٲَدْعُوکَ
میں بھی تیرا بندہ ہوں تجھ سے دعا 
فَاسْتَجِبْ لِی۔
کرتا ہوں پس میری دعا قبول فرما۔
امام جعفر صادق - فرماتے ہیں کہ بعض اوقات مجھے کوئی حاجت در پیش ہوتی ہے تو میں اس دعا کو پڑھتا ہوں اور جب واپس آتا ہوں تو میری دعا قبول ہوچکی ہوتی ہے۔
مؤلف کہتے ہیں؛ سید ابن طائوس(رح) نے اپنی کتاب جمال الاسبوع میں ایک گفتگو درج فرمائی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ جب تم خدا سے کو ئی حاجت طلب کرو تو تمہاری حالت کم از کم ایسی ہونی چاہیے جیسی کسی دنیاوی حاکم کے پاس کوئی اہم حاجت لے جاتے ہو وہ اس طرح جب تمہیں بادشاہ حاکم سے کوئی حاجت ہوتی ہے تو تم اس کی ہر ممکن رضا وخوشنودی حاصل کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہو۔ اسی طرح خدا سے حاجت طلب کرتے وقت بھی اس کی رضا وخوشنودی حاصل کرنے کی ہر ممکن کوشش کرو ایسا نہ ہو کہ دنیاوی حاکم کی طرف تو تمہاری توجہ زیادہ ہو اور خدائے تعا لیٰ کی طرف کم ہو اگر ایسا کرو گے تو پھر خدا تعالیٰ سے مذاق کر رہے ہو گے جس کا نتیجہ ہلاکت اور تباہی کے سوا کچھ نہیں ہوگا کیسے ہوسکتا ہے کہ خدا کی رضا کیلئے تو کم تر کوشش کی جائے اور مخلوق خدا کیلئے زیادہ کوشش کی جائے پس جب تمہارے نزدیک خدا کی قدر ومنزلت اس کے بندوں کی بہ نسبت کم ہوگی تو اس کا مطلب یہ ہے کہ تمہیں خدا کی عظمت وجلالت کا کوئی لحاظ و پاس نہیں اور تم خدا کے بندوں کو اس پر ترجیح دیتے ہو اور خدا کو کم تر گردانتے ہو اس طرح تو بہت ہی مشکل ہوگا کہ تم نماز یا روزے کے ذریعے بھی حاجت روائی کرو اور حاجت روائی کیلئے تم نماز یا روزہ بجا لائو تو یہ آزمائش اور تجربے کے لئے نہیں ہونا چاہیے کیونکہ آزمائش اس کی ہوا کرتی ہے جس کے بارے میں بد گمانی ہوتی ہے ۔
چنانچہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کی مذمت کرتا ہے جو اس کے بارے میں بد گمانی کرتے ہیں جیسا کہ فرماتا ہے:
یَظَنَّونَ بِاﷲِ ظَنَّ السَّوْئِٓ
یہ لوگ خدا سے بد گمانی کرتے ہیں 
عَلَیْھِمْ دَائِرَۃُ السَّوْئِٓ
بد گمانی تو انہیں کی طرف پلٹی ہے ۔
ہاں تو پورے اطمینان اور مکمل اعتماد کے ساتھ اس کی رحمت اور وعدوں پر بھروسہ کیاجائے نیز جانے رہو کہ خدا کے نزدیک تمہاری امیدوں کی حیثیت ایسی ہے جیسی حاتم سے ایک قیراط ﴿حقیر سی رقم﴾لینے کی ہو اس لئے کہ اگر تم ایک قیراط کے لئے حاتم کے پاس جائو گے تو تمہیں یقین ہوگا کہ خواہ کچھ بھی ہو حاتم جیسا سخی ایک قیراط تو دے ہی دے گا پس معلوم ہونا چاہیے تمہاری خدا سے حاجت حاتم سے ایک قیراط کی طلب سے کم تر نہیں ہونی چاہیے ۔
لہذا خبردار کہ خدا پر تمہار ا اعتماد اس سے کم نہ ہوجائے جتنا کہ تم حاتم پر رکھتے ہو نیز یہ بات بھی مناسب ہے کہ جب تمہیں کسی حاجت کیلئے نمازاور روزے کا عمل بجا لانا ہو تو یہ تمہاری دینی حاجات اور ان میں سے بھی اہم سے اہم تر کے لئے ہونا چاہیے ہم سب کی اہم ترین حاجت وہ عظیم شخصیت ہے جن کی ہدایت اور حمایت کی پناہ میں ہم سب رہتے ہیں اور وہ ہیںہمارے امام العصر ﴿عج﴾ لہذا تمہارا روزہ اور نماز مرتبہ اول پر تو آنجناب(ع) کی قضائ حاجات کیلئے مرتبہ دوم میں اپنی دینی حاجات کیلئے اور مرتبہ سوم میں تمہاری دیگر حاجات کیلئے ہو مثلا جب کوئی ظالم تمہیں قتل کرنے کے درپے ہو اور تم اس کی شر سے بچنے کیلئے روزہ رکھو لیکن تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ اس سے بڑھ کر کے تمہاری یہ دینی حاجت ہے کہ تمہیں خدا کی رضا و مغفرت حاصل ہو اور وہ تمہاری طرف توجہ فرمائے اور تمہارے اعمال کو قبولیت سے نوازے اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر ظالم بادشاہ و حاکم تمہیں قتل کر دے تو اس سے تمہارا دنیاوی نقصان ہوگا اورتمہاری دنیا خراب ہوگی لیکن تمہارا دین محفوظ رہے گا پھر یہ بات بھی ہے کہ اگر ظالم حاکم تمہیں قتل نہ بھی کرے تو بھی تمہیں مرنا ہے اور ایک دن موت کو آنا ہی ہے لیکن اگر تمہیں خدا کی خوشنودی اور مغفرت حاصل نہ ہو تو اس صورت میں تمہاری دنیا وآخرت دونوں برباد ہیں اور پھر تمہیں ایسے بھیانک اور ہولناک حالات سے دو چار ہونا پڑے گا جو کہ تمہارے وہم وگمان میں بھی نہ ہوگا یہ جو پہلے ہم نے بتا یا ہے کہ اپنی حاجات پر امام العصر ﴿عج﴾ کی حاجات کو مقدم رکھو تو اس کی وجہ یہ ہے کہ دنیااور اہل دنیا کی بقا آپ ہی کے وجود مبارک سے ہے جب تمہاری زندگی کسی اور کی زندگی پر موقوف ہو تو پھر اپنی حاجات کو اس کی حاجات پر کیسے مقدم کر سکتے ہو بلکہ واجب ہوتا ہے کہ اس کی حاجات کو اپنی حاجات پر فوقیت دی جائے اور اس کی مراد کو اپنی مراد پر مقدم کیا جائے پھر یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ وہ مخدوم کائنات تمہارے روزے نماز کا محتاج نہیں ہے لیکن بندگی کا تقاضا اور شرافت کا لازمہ یہی ہے کہ تم ایسا کرو لہذا اپنی ہر حاجت کے بیان سے پہلے اس خاندان عصمت وطہارت پر صلوات بھیجو امام العصر﴿عج﴾ کی سلامتی کیلئے دعا کرو اور پھر خدا سے اپنی حاجات طلب کرو ۔