ظالمین کے لئے کس قدر برا بدلا ھے

<”ومن یبتغ غیرالاسلام دینا فلن یقبل منہ وهو فی الآخرة من الخاسرین ۔>[1]

 

   ثمّ لم تلبثو ا الا ریث ان تسکن نفرتھا ،ویسلس قیادھا ،ثمّ اخذتم تورون وقدتھا وتھیجون جمرتھا،  وتستجیبون لھتاف الشیطان الغویّ واطفاء انوار الدین الجلی وإھمال سنن النبی الصفی، تشربون حسواً فی ارتغاء وتمشون لاھلہ وولد ہ فی الخمرة والضراء ،ویصیر منکم علیٰ مثل حزّالمدیٰ،وَوُخْزالسنان فی الحشاء ۔

 

وانتم الان تزعمون ان لا ارث لی من ابی ۔< افحکم الجاھلیة تبغون  ومن احسن من اللّٰہ حکماً لقوم یوقنون >[8]

 

افلا تعلمون،! بلیٰ قد تجلی لکم کا الشمس الضاحیة انی ابنتہ۔

 

 اٴیَّھا المسلمون !  اٴ اُغلب علی ارثی۔؟

 

جو شخص اسلام کے علاوہ کسی دوسرے دین کو اختیا رکریگا اس کا دین قبول نھیں کیا جائیگا اورآخرت میں ایسا شخص سخت گھاٹے میں هوگا ۔

تم خلافت کے مسئلہ میںاتنا بھی صبرنہ کرسکے کہ خلافت کے اونٹ کی سرکشی خاموش هوجائے اوراسکی قیادت آسان هوجائے(تاکہ آسانی کے ساتھ اس کی مھار کو ھاتھوں میں لے لو)  اس وقت تم نے آتش فتنہ کو روشن کردیا اور اس کے ایندھن کو اوپر نیجے کیا (تاکہ لکڑیاں خوب آگ پکڑلیں) اورشیطان کی دعوت کو قبول کرلیا اور دین کے چراغ اور سنت رسول(ص) کوخاموش کرنے میں مشغول هوگئے ،تم ظاھر کچھ کرتے هو لیکن تمھارے دلوں میں کچھ اور بھرا هوا ھے۔

 

میں تمھارے کاموں پر اس طرح صبر کرتی هوں جس طرح کسی پرچھری اورنیزے سے پیٹ میں زخم کردیا جاتا ھے، اور وہ اس پر صبر کرتا ھے  ۔

 

تم لوگ گمان کر تے هو کہ ھمارے لئے ارث نھیںھے، ؟! ” کیا تم سنت جاھلیت کو نھیں اپنا رھے هو ؟!!

 

 ” کیا یہ لوگ (زمانہ) جاھلیت کے حکم کی تمنا رکھتے ھیں حالانکہ یقین کرنے والوں کے لئے حکم خدا سے بھتر کون هوگا۔“

 

 کیا تم نھیں جا نتے کہ صاحب ارث ھم ھیں، چنانچہ تم پرروزروشن کی طرح واضح ھے کہ میںرسول کی بیٹی هوں، اے مسلمانو! کیا یہ صحیح ھے کہ میں اپنے ارث سے محروم رهو ں(اور تم میری خاموشی سے فا ئدہ اٹھاکر میرے ارث پر قبضہ جمالو۔)

 

یا ابن ابی قحافة اٴفی کتاب اللّٰہ  ترث اباک ولا ارث ابی ؟ <لقد جئت شیئا فریا>

 

افعلیٰ عمدٍ ترکتم کتاب اللّٰہ ونبذ تموہ وراء ظهور کم اذیقول: <وورث سلیمانُ داودَ >[3]

 

وقال فیمااقتص من خبریحییٰ بن زکریا علیہ السلام اذ قال:  <ربِّ ھب لی من لدنک ولیاًیرثنی ویرث من آل یعقوب >[4]

 

وقال :<واولوالارحام بعضھم اولیٰ ببعض فی کتاب اللّٰہ > [5]

 

وقال :<یو صیکم اللّٰہ  فی اولا دکم للذکرمثل حظ الانثیین> [6]

 

وقال :<ان تر ک خیرا الوصیة للوالدین والا قربین با لمعروف حقاعلی المتقین>[7]

 

اے ابن ابی قحافہ  !  کیایہ کتاب خدا میں ھے کہ تم اپنے باپ سے میراث پاؤ ا ورھم اپنے باپ کی میراث سے محروم رھیں، تم نے فدک سے متعلق میرے حق میں عجیب وغریب حکم لگایا ھے، اور علم وفھم کے با وجود قرآن کے دامن کو چھوڑدیا ،  اس کو پس پشت ڈالدیا؟

 

کیا تم نے بھلادیا کہ خدا قرآن میں ارشاد فرماتا ھے <وورث سلیمان داود> ”جناب سلیمان نے جناب داود سے ارث لیا“، اورجناب یحيٰ بن زکریاکے بارے میں ارشاد هوتا ھے کہ انهوں نے دعا کی:

 

”بارِ الہٰا ! اپنی رحمت سے مجھے ایک فرزند عنایت فرما، جو میرا اورآل یعقوب کا وارث هو“،  نیز ارشاد هوتا ھے:  ” اور صاحبان قرابت خدا کی کتاب میں باھم ایک دوسرے کی (بہ نسبت دوسروں ) زیادہ حق دار ھیں۔“ اسی طرح حکم هوتا ھے کہ ” خدا تمھاری اولاد کے حق میں تم سے وصیت کرتا ھے کہ لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے برابر ھے “ ۔

 

 نیز خداوندعالم نے ارشاد فرمایا:

 

 ”تم کو حکم دیا جاتا ھے کہ جب تم میں سے کسی کے سامنے موت آکھڑی هو بشرطیکہ وہ کچھ مال چھوڑجائے تو ماں باپ اور قرابت داروں کے لئے اچھی وصیت کرے ، جو خدا سے ڈرتے ھیں ان پر یہ ایک حق ھے۔“

 

وزعمتم ان لا حَظْوَة لی ولا ارث من ابی ، ولا رحم بیننا، اٴفخصّکم اللّٰہ بآیةاخرج  ابی منھا ؟ ام ھل تقولون ان اھل ملتین لا یتوارثان؟اولست انا وابی من اھل ملة واحدة؟ ام انتم اعلم بخصوص القرآن وعمومہ من ابی وابن عمی ؟

 

فدونکھا مخطو مة مر حو لة ، تکون معک فی قبرک، تلقاک یوم حشرک ،فنعم الحکم اللّٰہ، و  نعم  الزعیم محمد(صلی الله علیہ  آلہ وسلم) والموعد القیامةوعندالساعة یخسر المبطلون ولا ینفعکم اذ تندمون <ولکل نبامستقر >[8]

 

<وسوف تعلمون من یاتیہ عذاب یخزیہ ویحلّ علیہ عذاب مقیم>[9]

 

 کیا تم گمان کرتے هو کہ میرا اپنے باپ سے کوئی رشتہ نھیں ھے اور مجھے ان سے میراث نھیں ملے گی ؟

 

کیا خداوندعالم نے ارث سے متعلق آیات کو تم ھی لوگوںسے مخصوص کردیا ھے؟ اور میرے باپ کو ان آیات سے الگ کردیا ھے ؟یا تم کھتے هو کہ میرا اورمیرے باپ کا دوالگ الگ ملتوں سے تعلق ھے ؟ لہٰذا ایک دوسرے سے ارث نھیں لے سکتے۔

 

آیاتم لوگ میرے پدربزرگوار اور شوھر نامدارسے زیادہ قرآن کے معنیٰ ومفاھیم ،عموم وخصوص اورمحکم ومتشابھات کوجانتے هو ؟

 

تم نے فدک اور خلافت کے مسئلہ کو اونٹ کی طرح مھار کرلیا ھے اور اس کو آمادہ کرلیاھے جو قبر میں تمھاری ساتھ رھے گا اور روز قیامت ملاقات کریگا ۔

 

 اس روز خدا بھترین حاکم هوگا اور محمد بھترین زعیم ، ھمارے تمھارے لئے قیامت کا دن معین ھے وھاںپر تمھارا نقصان اور گھاٹاآشکارهوجائےگا اورپشیمانی اس وقت کوئی فائدہ نہ پهونچائے گی،” ھر چیزکے لئے ایک دن معین ھے“ ۔ ” عنقریب ھی تم جان لوگے کہ عذاب الٰھی کتنا رسوا کنندہ ھے ؟اور عذاب بھی ایسا کہ جس سے کبھی چھٹکارا نھیں“۔

 

خطاب للانصار

 

ثمّ رمت بطرفھا نحو الانصار فقالت :یا معشر (النقیبة)واعضاد الملة وحضنة الاسلام ،ما ھذہ الغمیزة فی حقی،والسنّة عن ظلامتی ؟

 

اماکان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ والہ ابی یقول: ”المرء یحفظ فی ولدہ“سرعان ما احدثتم و عجلان ذا  اھالة ، ولکم طاقة بما احاول وقوّة علی ما اطلب واٴزاول ۔

 

اٴتقولون : مات محمد (ص)،   فخطب جلیل، استوسع وہنہ،واستنھر فتقہ، و انفتق رتقہ ،واظلمت الارض لغیبتہ وکسفت الشمس والقمر، وانتثرت النجوم لمصیبتہ،  واکدت الآمال، وخشعت الجبال ،واُضیع الحریم ،وازیلت الحرمة عند مماتہ ۔

 

فتلک واللّٰہ النازلة الکبریٰ والمصیبة العظمیٰ ، لامثلھا  نازلة، ولا بائقة عاجلة، اعلن بھا کتاب اللّٰہ جلّ      ثنا وٴہ فی افنیتکم وفی ممساکم ومصبحکم یھتف فی افیتکم  ھتافا وصراخا وتلاوة والحانا،ولقبلہ ما حلّ بانبیاء اللّٰہ ورسلہ حکم فصل وقضاء حتم ۔

 

انصار سے خطاب

اس کے بعد انصارکی طرف متوجہ هوئیںاورفرمایا:

 

اے اسلام کے مددگار بزرگو!  اور اسلام کے قلعوں،میرے حق کو ثابت کرنے میںکیوںسستی برتتے هو اور مجھ پر جو ظلم وستم هورھاھے اس سے کیوںغفلت  سے کام لے رھے هو ؟! کیا میرے باپ نے نھیں فرمایاتھا کہ کسی کا احترام اس کی اولاد میں بھی محفوظ رھتاھے( یعنی اس کے احترام کی وجہ سے اس کی اولادکااحترام بھی هوتا ھے؟)

 

تم نے کتنی جلدی فتنہ برپا کردیا ھے اور کتنی جلدی هوا وهوس کے شکار هوگئے! تم اس ظلم کو ختم کرنے کی قدرت رکھتے هو اور میرے دعوی کو ثابت کرنے کی طاقت بھی۔

 

یہ کیا کہہ رھے هو کہ محمد مرگئے ! (او ران کا کام تمام هوگیا)  یہ ایک بھت بڑی مصیبت ھے جس کا شگاف ھر روز بڑھتا جارھاھے اورخلاء واقع هو رھا ھے، آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے جانے سے زمین تاریک هوگئی اور شمس وقمر بے رونق هوگئے، ستارے مدھم پڑ گئے، امیدیں ٹوٹ گئیں،پھاڑوں میں زلزلہ آگیااوروہ پاش پاش هوگئے ھیں ،حرمتوں کا پاس نھیں رکھا گیا اور پیغمبر اکرم  (ص)کی رحلت کے وقت ان کے احترام کی رعایت نھیں کی گئی۔

 

<وما محمد الا رسول قد خلت من قبلہ الرّسل افان مات اوقتل انقلبتم علی اعقابکم ومن ینقلب علی عقبیہ فلن یضراللّٰہ شیئا وسیجزی اللّٰہ الشاکرین [10]

 

اٴیْھاً  بنی قیلہ !  اٴ اٴہضم تراث ابی؟ و انتم  بمرای منّی ومسمع، ومنتدی ومجمع  تلبسکم الدعوة وتشملکم الخُبرة وانتم ذوو العدد والعدة والاداة والقوة،وعندکم السلاح والجُنة  تو ا فیکم الدعوة فلا تجیبون ، وتاتیکم الصرخة فلا تغیثون وانتم موصوفون بالکفاح ،معروفون بالخیر والصلاح ،والنخبة التي انتخبت والخیرة التی اختیرت لنا اھل البیت ۔

 

قاتلتم العرب ،وتحملتم الکدّ والتعب،وناطحتم الامم وکافحتم البُھم،لا نبرح ولا تبرحون ،نامرکم فتاتمرون ، حتی اذا دارت بنا رحی الاسلام ودرّ حلب الایام ،وخضعت نعرة الشرک، وسکنت فورة الافک وخمدت نیران الکفر،وھداٴت دعوة الھرج،و استوسق نظام الدین ۔

 

خدا کی قسم یہ ایک بھت بڑی مصیبت تھی جس کی مثال دنیا میں نھیں مل سکتی۔

 

یہ اللہ کی کتاب ھے جس کی صبح وشام تلاوت کی آواز بلند هورھی ھے اور انبیاء علیھم السلام کے بارے میں اپنے حتمی فیصلوں کے بارے میں خبر دے رھی ھے اور اس کے احکام تغیر ناپذیر ھیں(جیسا کہ ارشاد هوتا ھے) :

 

”اور محمد(ص)صرف خدا کے رسول ھیں، ان سے پھلے بھی دوسرے پیغمبرموجود تھے، اب اگر وہ اس دنیا سے چلے جائیں، یا قتل کردئے جائیں تو کیا تم دین سے پھر جاوٴگے، اور جو شخص دین سے پھر جائے گا وہ خدا کو کوئی نقصان نھیں پهونچاسکتا،خدا شکر کرنے والوںکو جزائے خیردیتاھے“ ۔

اے فرزندان قیلہ( اوس وخزرج) کیا یہ مناسب ھے کہ میں اپنے باپ کی میراث سے محروم رهوں جبکہ تم یہ دیکھ رھے هواور سن رھے هو اوریھاں حاضربھی هو  اور میری آوازتم تک پهونچ بھی رھی ھے اور تم واقعہ سے با خبر بھی هو، تمھاری تعداد زیادہ ھے، تمھارے پاس طاقت واسلحہ بھی ھے، اور میں تم کو اپنی مدد کے لئے پکار رھی هوں، لیکن تم اس پر لبیک نھیں کھتے، میری فریادکو سن رھے هو مگر فریاد رسی نھیں کرتے هو، تم بھادری میںمعروف اور نیکی سے موصوف اورخود نخبہ هو ، تم ھی ھم اھلبیت (ع) کے لئے منتخب هوئے ،تم نے عربوںکے ساتھ جنگیں لڑیں، سختیوں کوبرداشت کیا، مختلف قبیلوں سے جنگ کی، سورماوٴں سے زورآزمائی کی ، جب ھم

 

فانّٰی حُرتم بعد البیان  واسررتم بعد الاعلان  ونکصتم بعد الاقدام  واشرکتم بعدالایمان بوساً لقوم نکثوا؟

 

<الا تقاتلون قوما نکثواایمانھم وھموا باخراج الرسول وھم بداٴوکم اول مرة  اتخشونھم فاللّٰہ احق ان تخشوہ ان کنتم موٴمنین >[11]

 

اٴلا و قد اری ان قد اخلدتم الی الخفض ،وابعدتم من ھو احقّ بالبسط والقبض، ورکنتم الی الدعة،  ونجوتم من الضیق بالسعة فمججتم ما وعیتم ،ودسعتم الذی تسوغتم۔

 

<فان تکفروا  اٴنتم ومن فی الارض جمیعا  فان اللّٰہ لغنی حمید>[12]

 

قیام کرتے تھے توتم بھی قیام کرتے تھے ھم حکم دیتے تھے اورتم اطاعت کرتے تھے ۔

 

یھاں تک کہ اسلام نے رونق پائی اور نعمتیں اور خیرات زیادہ هوئےں، مشرکین کے سر جھک گئے، ان کا جھوٹا وقاروجوش ختم هوگیا،اورکفرکے آتش کدے خاموش هوگئے ، شورش اور شوروغل ختم هوگیا اور دین کا نظام مستحکم هوگیا۔

 

اے گروہ انصار:  متحیرهوکر کھاںجارھے هو ؟ !  حقائق کے معلوم هونے کے بعد انھیں کیوںچھپاتے هو،اور قدم آگے بڑھانے کے بعد پیچھے کیوں ہٹا رھے هو، اورایمان لانے کے بعد مشرک کیوں هو رھے هو ؟

 

” بھلا تم ان لوگوں سے کیوں نھیں لڑتے جھنوں نے اپنی قسموں کو توڑ ڈالا ھے اور رسول کا شھر بدر کرنا چاھتے ھیں، اور تم سے پھلے پھل چھیڑ بھی انھوں نے ھی شروع کی تھی کیا تم ان سے ڈرتے هو ،حالانکہ کہ اگر تم سچے ایماندار هو تو تمھیں صرف خدا سے ڈرنا چاہئے ۔“

 

میں دیکھ رھی هوں کہ تم پستی کی طرف جارھے هو جو شخص لائق حکومت تھا اس کو برکنار کردیا اورتم گوشہ نشینی اختیار کرکے عیش وعشرت میں مشغول هو،زندگی کے وسیع وعریض میدان سے فرار کرکے راحت طلبی کے تنگ وتار ماحول میں پھنس گئے هو، جو کچھ تمھارے اندرتھا اسے ظاھر کردیااور جوپی چکے تھے اسے اگل دیا، ”لیکن آگاہ رهو اگرتم اور روئے زمین پرآباد تمام انسان کافرهوجائیںتو خدا تمھارا محتاج نھیںھے ۔“

اٴلا و قد قلتُ ما قلت علی معرفة منی بالخذلة  التی خامرتکم والغدرة  التی   استشعرتھا   قلوبکم ، و لکنھا  فیضة  النفس ، ونفثة الغیض (الغیظ)و خور القنا وبثّة الصدرِوتقدمة الحجة ۔

 

فدونکموھا فاحتقبوھا دبرة الظھرنقبة  الخف ،باقیة العار، موسومة بغضب اللّٰہ وشنار الابد ،موصولة بناراللّٰہ  الموقدة التی تطّلع علی  الافئدة ۔فبعین اللّٰہ ماتفعلون <وسیعلم الذین ظلموا ایّ منقلب ینقلبون۔>[13]

 

وانا ابنة نذیر لکم بین یدی عذاب شدید ، فاعلموا <انّا عاملون وانتظروا انّا منتظرون>[14][15]

 

اے لوگو!   جو کچھ مجھے کہناچاہئے تھا سوکہہ دیا،  چونکہ میںجانتی هوںکہ تم میری مددنھیںکروگے، تم لوگ جو منصوبے بناتے هو مجھ سے پوشیدہ نھیںھیں، دل میں ایک درد تھا جس کو بیان کردیاتاکہ تم پرحجت تمام هوجائے اب فدک اورخلافت کوخوب مضبوطی سے پکڑے رکھو،لیکن یہ بھی جان لو کہ اس راہ میں بڑی دشواریاں ھیں اور اس”فعل “کی رسوائیاںاورذلتیںھمیشہ تمھارے دامن گیر رھیںگی۔

 

خدا اپنا غیظ وغضب زیادہ کریگا اوراس کی سزا جہنم هوگی،” خدا تمھارے کردارسے آگاہ ھے بھت جلد ستمگاراپنے کئے هوئے اعمال کے نتائج دیکھ لیں گے“

 

 اے لوگو!  میں تمھارے اس نبی کی بیٹی هوںجس نے تمھیںخدا کے عذاب سے ڈرایا،اب جو کچھ تم لوگ کرسکتے هو کرو، ھم اس کا ضرور انتقام لیںگے تم بھی منتظر هو ، ھم بھی منتظرھیں۔ [16]

 

علیٰ اٴثر الخطبة

 

کان لخطبة الزھراء  سلام الله علیھا اٴثر بالغ ومحرّک لنفوس الناس، سیّما  الانصار منھم، لما تحملہ تلک الخطبة من الواقعیة والصدق والاستناد الی اُسس متنیة قوامھا الکتاب الکریم والسنة النبویة المبارکة، فی بیان مظلومیتھا وفی اشادتھا بفضل اٴمیر الموٴمنین علی علیہ السلام واٴحقّیتہ فی خلافة الرسول الله صلی الله علیہ وآلہ وسلم ، ممّا جعل الاٴنصار یھتفون باسم علی علیہ السلام، فاستشعر رجال السقیفة الخطر من ھذہ البادرة، فنادی اٴبوبکر الصلاة جامعة، فاجتمع الناس فاٴرعد و اٴبرق۔

 

رویٰ الجوھری عن جعفر بن محمد بن عمارة بعدة طرق، قال: لما سمع اٴبوبکر خطبتھا شقّ علیہ مقالتھا، فصعد المنبر وقال:

 

 ”اٴیّھا الناس، ماھذہ الرِّعة الی کلِّ قالة؟!  ومع کلّ قالة اٴُمنیة، این کانت ھذہ الاٴمانی فی عھد نبیکم؟!

 

خطبہ کے آثار

 

آپ کے اس خطبہ کا اثرلوگوں پر خاص طور سے انصارپر بھت هوا، کیونکہ یہ خطبہ واقعیت اور صداقت پر مبنی تھا اور اس خطبہ میں قرآن کریم اور سنت نبوی سے دلائل پیش کئے گئے تھے کہ حضرت پر کیا کیا ظلم وستم هوئے، اس خطبہ میں حضرت علی علیہ السلام کی فضیلت بیان کی گئی اور باقاعدہ دلیلوں کے ذریعہ یہ ثابت کیا گیا کہ آپ ھی خلافت رسول کے حقدار تھے، اور جس وقت انصار پر اس خطبہ کا اثر هوا تو حضرت علی کا نام لے لےکر چلانا شروع کیا، چنانچہ یہ دیکھ کر اھل سقیفہ نے خطرہ کا احساس کیا اور ابوبکر نے نماز جامعہ کی طرف بلایا جس پر سب دوڑے هوئے چلے گئے۔

 

جوھری نے جعفر بن محمد بن عمارہ سے متعدد طریقوںسے روایت کرتے هوئے کھا : جب جناب ابوبکر نے حضرت زھرا سلام اللہ علیھا کا خطبہ سنا تو اس پر بھت گراں گزرا، چنانچہ منبر پر جاکر اس طرح لوگوں سے خطاب کیا :

 

اٴلا من سمع فلیقل، ومن شھد فلیتکلم، انما هو ثُعالة  شھیدہ ذنبہ، مربّ لکلِّ فتنةٍ، هوالذی یقول: کرّوھاً جذعةً بعد ما ھرمت، یستعینون بالضعفة، و یستنصرون بالنساء، کاٴُمِّ طحال اٴحب اٴھلھا الیھا البغي !!!

 

اٴلا انی لواٴشاء ان اٴقول لقلت، ولوقلت لبحت، وانی ساکت ماتُرکت۔

 

ثم التفت الی الاٴنصار فقال: قد بلغنی یا معشر الاٴنصار مقالة سفھائکم، فو الله ان اٴحق الناس بلزوم عھدرسول الله اٴنتم، فقد جاء کم فآویتم ونصرتم، واٴنتم الیوم احق من لزم عھدہ، ومع ذلک فاغدوا علیٰ اٴُعطیاتکم، فانی لست کاشفاً قناعاً، ولا باسطاً ذراعاً ولا لساناً الّا علی من استحق ذلک، والسلام۔

 

ثم نزل، فانصرفت فاطمة علیھا السلام الیٰ منزلھا۔[17]

 

”یہ سب کچھ جو تم لوگوں نے سنا ، اور چونکہ ھربات کا ایک مقصد هوتا ھے، اور یہ بات زمانہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں کھاں تھی؟ پس جس نے بھی سنا هو وہ بتائے اور جس نے بھی دیکھا هو وہ گواھی دے، یہ سب کچھ مکروفریب ھے اور اس کا گواہ اس کا شوھر ھے، جو ھر فتنہ کی جڑ ھے، وہ یہ کھتے ھیں کہ یہ لوگ حق وحقیقت کو پانے کے بعد زمان جاھلیت کی طرف پلٹ گئے ، اور وہ بچوں (حسن وحسین(ع)) کے ذریعہ مدد لیتے ھیں اور عورتوں کے سھارے نصرت ومدد چاھتے ھیں جس طرح امّ طحال (زمان جاھلیت میں باغی اور سرکش عورت) سے اس کے اھل خانہ اس کی نازیبا حرکتوں سے خوش هوتے ھیں۔!!

 

آگاہ رهو کہ اگر میں چاھتا تو کھتا، او راگر کھتا تو تم مبهوت هوکر رہ جاتے، لیکن میں تو اس وقت ساکت بیٹھا هوں۔

 

اس کے بعد انصار کی طرف متوجہ هوکر کھا:

 

” اے گروہ انصار ! تم لوگوں میں سے بعض احمقوں کی گفتگومجھ تک پهونچی جو کھتے ھیں: ”ھم عھد رسول اللہ میں زیادہ حقدار تھے، کیونکہ ھم نے تم کو پناہ دی اور تمھاری نصرت کی، اور تم آج اپنے کو زیادہ حقدار سمجھتے هو ، لیکن میں تمھاری باتوں کو چھوڑتا هوں اور ان کا کوئی اثر نھیں لیتا، اور نہ ھی مجھے کسی چیز کا لالچ ھے، مگر یہ کہ جس چیز کا میں مستحق هوں، والسلام“۔

 

 اس کے بعد منبر سے اتر گیا۔

 

 اس کی باتیں سن کر جناب فاطمہ وھاں سے اپنے گھر کی طرف روانہ هوگئیں۔

 

قال ابن اٴبی الحدید: قراٴت ھذا الکلام علی النقیب اٴبی یحيٰ جعفر ابن یحيٰ بن اٴبی زید البصري، وقلت لہ:

 

”بمن یعرض“ ؟

 

فقال: ”بل یصرّح“

 

قلت: ”لو صرّح لم اٴساٴلک“

 

فضحک وقال: ”بعلی بن اٴبی طالب علیہ السلام۔“

 

قلت: ”ھذا الکلام کلّہ لعلی یقولہ“!!

 

قال: ”نعم انّہ الملک یا بني۔

 

قلت: ”فما مقالة الاٴنصار۔؟

 

قال: ”ھتفوا بذکر علی علیہ ا لسلام، فخاف من اضطراب الاٴمر علیھم، فنھاھم۔ [18]

 

ابن ابی الحدیدکھتے ھیں:

 

” حضرت ابوبکر کی اس گفتگو کو میں نے استاد ابو یحیٰ جعفر بن یحیٰ بن ابی زید بصری کے سامنے پڑھا اور سوال کیا کہ اس کلام میں کس کی طرف اشارہ ھے تو انھوں نے کھا کہ اشارہ نھیں ھے بلکہ واضح طور پر بیان ھے، ابن ابی الحدید نے کھا کہ اگر واضح هوتا تو میں آپ سے کیوں سوال کرتا، یہ سن کر ابو جعفر مسکرائے اور کھا :

 

 یہ سب کچھ حضرت علی (علیہ السلام) کی طرف اشارہ ھے، ابن ابی الحدید بھت تعجب سے کھتے ھیں کہ حضرت ابوبکر نے یہ سب کچھ حضرت علی علیہ السلام کی شان میں کھا ھے ۔

 

ابو جعفر نے کھا کہ جی ھاں یہ سب کچھ حضرت علی (ع) کی شان میں کھاکیونکہ وہ اس وقت کے خلیفہ اور بادشاہ تھے۔

 

اس کے بعد میں نے سوال کیا کہ انصار کی گفتگو کیا تھی؟ (جس کی بنا پر جناب ابوبکر نے کھا :         ”تم میں سے بعض احمقوں کی باتیں مجھ تک پهونچی) ،تو ابوجعفر نے کھا انصار نے حضرت علی علیہ السلام کی حمایت میں آواز بلند کی (اور حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں رسول اللہ کی وصیت کو بیان کیا، یہ دیکھ کر جناب ابوبکر ڈرے اور اس کام سے روک دیا“)

 

ندبتھا للرسول (ص)

 

قد کان بعد ک انباء وہنبثہ

 

لو کنتَ شاھدھا لم تکثر الخطْب

انا فقد ناک فقد الا رض وابلھا

 

 واختل قو مک فاشھدھم فقد نکبوا

 

ابدیٰ رجال لنانجویٰ صدورھم

 

 لمامضیتَ وحالت دونک التُّربُ۔

 

تجہّمتْنَا رجال و استخفَّ بنا

 

 لما فقدت وکل الارث مغتصب

 

وکنت بدراً و نوراً  یستضاء بہ

 

علیک  تنزل  مِن  ذی العز ة الکتب

 

وکان جبریل با لآیا ت یو نسنا

 

 فقد فقدتَ وکل الخیر محتجب

 

فلیت قبلک کان الموت  صادفنا

 

 لمّا مضیت وحالت دونک الکثبُ

 

انّا رزئنا بما لم یُرز ذوشجن

 

  من البریة لا عجم ولا عرب

 

قبر رسول(ص) پر آپ کے اشعار

 

اے پدر محترم!  آپ کے بعد فتنے رونما هو ئے، طرح طرح کی آوازیں بلندهو ئیں اگر آپ زندہ هو تے تو اس طرح کے اختلافات سامنے نہ آتے ۔

 

آپ ھمارے درمیان سے چلے گئے اور ھمارا حال ا س زمین کی طرح هوگیا ھے جو باران رحمت سے محروم هو گئی هو اورآپ کی قو م وملت میں باھمی خلل واقع هوگیا ھے پس آپ شاھد ھیں اور انکے کارناموں سے چشم پو شی نہ فر ما ئیں

 

 لیکن ھم پرکچھ لوگوں کا بغض وحسداس وقت آشکار هوا جب آپ ھمارے درمیان سے اٹھ گئے اور منوں مٹی کے نیچے چھپ گئے ۔

 

جب آپ ھمارے درمیان سے اٹھ گئے تو لوگوںمیںسے ایک گروہ نے یہ چال چلی ، ھمارے مقام کو سبک کر دیا ، اور ھماری میراث کو غصب کرلیا۔

 

آپ ایک نو رفروز اں تھے جس سے وہ لوگ فائدہ اٹھاتے رھے آپ ھی وہ شخصیت ھیں کہ جن پر آسمانی کتاب” قرآن “ نازل کی گئی ۔

اور ھم کو جناب جبرئیل نے قرآنی آیات سے مانوس کیا اور آپ کے جانے سے ھما رے لئے خیرکے سارے دروازے بندهو گئے ۔

 

اے کاش کہ آپ کے جانے سے قبل ھمکو موت آجاتی ،آپ گئے اور ایک گروہ اپنے با طل مقاصد کو پانے کے لئے تل گیا۔

 

آپ کے جا نے کے بعد ھم نے وہ مصیبتیں دیکھیں جوعرب و عجم میں سے کسی نے نھیں دیکھیں ۔

---------------------------------------

[1]سورہ آل عمران آیت ۸۵

 

[2]سورہ مائدہ  آیت ۵۰

 

[3] سورہ نمل ،آیت۱۶

 

[4] سورہ مریم ،آیت ۴ و۶

 

[5] سورہ انفال،آیت ۷۵

 

[6] سورہ نساء، آیت

 

[7]سورہ بقرہ،آیت ۱۸۰

 

[8] سورہ انعام، آیت ۶۷

 

[9] سورہ ہود آیت۳۹

 

[10] سورہ آل عمران آیت۱۴۴۔

 

[11]سورہ توبہ، آیت ۱۲

 

[12]سورہ ابراھیم ،آیت ۸

 

[13]سورہ شعراء آیت ۲۲۷

 

[14]سورہ ہود، آیت ۱۲۱و۱۲۲

 

[15] احتجاج شیخ طبرسی، ص ۷۹؛دلائل الامامة، ص ۳۰؛ کشف الغمہ، ج۱، ص۱۸۰؛ بحار الانوار، ج۲۹، ص ۲۳۰؛ شرح نھج البلاغہ، ابن ابی الحدید، ج۱۶، ص ۲۱۱۔

 

[16] احتجاج شیخ طبرسی، ص ۷۹؛دلائل الامامة، ص ۳۰؛ کشف الغمہ، ج۱، ص۱۸۰؛ بحار الانوار، ج۲۹، ص ۲۳۰؛ شرح نھج البلاغہ، ابن ابی الحدید، ج۱۶، ص ۲۱۱۔

 

[17] دلائل الامامة ۱۲۳، شرح ابن ابی الحدید ج۱۶ ص ۲۱۵۔

 

[18] شرح ابن ابی الحدید جلد ۱۶، ص۲۱۵۔