خطبة الزھرا س فی مسجد النبی ص

 

 

رویٰ خطبة الزھرا سلام اللّٰہ علیھا فی المسجد النبی جمع من اعلام الشیعة والعامة بطرق متعددة تنتھی بالاسناد عن زید بن علی ، عن ابیہ، عن جدہ علیہ السلام۔ وعن الامام جعفر بن محمد الصادق علیہ السلام عن ابیہ الباقر علیہ السلام۔ وعن جابر الجعفی عن ابی جعفر الباقر علیہ السلام۔ وعن عبد اللّٰہ بن الحسن، عن ابیہ ۔ وعن زید بن علی، عن زینب بنت علی علیہ السلام۔ وعن رجال من بنی ھاشم، عن زینب بنت علی علیہ السلام۔ وعن عروة بن الزبیر، عن عائشة، قالوا لما بلغ فاطمة علیھا السلام اجماع ابی بکر علی منعھا فدک، وانصرف عاملھا منھا۔ لاثت خمارھا علی راسھا واشتملت بجلبابھا، واقبلت فی لُمةٍ من حفدتھا، ونساء قومھا ، تطاٴذیولھا، ما تخرم مشیتھا مشیة رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم۔

 

مسجد نبوی میں فاطمہ زھرا (ع)کاتاریخ ساز خطبہ

 

حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا کا مسجد نبوی میں تاریخ ساز خطبہ شیعہ وسنی دونوں فریقوں نے متعدد طریقوں سے نقل کیا ھے کہ جس کی سند کا سلسلہ زید بن علی تک پهونچتا ھے ، اس طرح کہ انھوں نے اپنے پدر بزرگوار او رجد اعلیٰ سے نقل کیا ھے ، اسی طرح امام جعفر صادق علیہ السلام نے اپنے والد امام باقر علیہ السلام سے، نیز جابر جعفی نے حضرت امام باقر علیہ السلام سے نقل کیا، اسی طرح جناب عبد اللہ بن حسن نے اپنے والد امام حسن علیہ السلام سے ،نیز زید بن علی نے زینب بنت  علی علیہ السلام سے ،اسی طرح خاندان بنی ھاشم کے بعض افراد نے زینب بنت علی علیہ السلام سے، نیز عروة بن زبیر نے حضرت عائشہ سے نقل کیا ھے ، یہ سب کھتے ھیں :

 

حتیٰ دخلت علی ابي بکر وهو فی حشدٍ من المھاجرین والانصار وغیرھم، فنیطت دونھا ملاء ة، فجلست ثم انّت انّةً اجہش القوم لھا بالبکاء، فارتجّ المجلس، ثم امھلت ہنیہة، حتی اذا سکن نشیج القوم، وھدات فورتھم، افتتحت الکلام بحمدالله فقالت:

 

” الحمدُ للّٰہ علیٰ ما انعم ولہ الشکر علی ما الھم، والثناء بماقدّم من عموم نِعَمٍ ابتداٴھا،وسبوغ آلاء اٴسداھا وتمام منَن اٴولاھا،جمّ عن الاحصاء عددھا، وناٴیٰ عن الجزاء اٴمدُھا،وتفاوت عن الادراک اْبدھا وندبھم لاِسْتِزادتھا باالشکرلاتّصالھا واستحمد الی الخلائق باجزالھا،وثنّی بالندب الی امثالھا۔

 

 واشھدان لا الہ الّا اللّٰہ وحد ہ لاشریک لہ،کلمةٌجعل الاخلاص تاٴ ویلھا وضمن القلوب موصولھا ،وانار فی

 

جس وقت جناب ابوبکرنے خلافت کی باغ ڈور سنبھالی اورباغ فدک غصب کرلیا، جناب فاطمہ(س) کوخبر ملی کہ اس نے سرزمین فدک سے آپ کے نوکروں کو ہٹاکراپنے کارندے معین کردئیے ھیں تو آپ نے چادر اٹھائی اورباپردہ ھاشمی خواتین کے جھرمٹ میںمسجد النبی(ص)کی طرف اس طرح چلی کہ نبی(ص) جیسی چال تھی اور چادرزمین پر خط دیتی جارھی تھی۔

جب آپ مسجد میں وارد هوئیں تواس وقت جناب ابو بکر،مھا جرین و انصار اور دیگر مسلمانوں کے درمیان بیٹھے هوئے تھے،آپ پردے کے پیچھے جلوہ افروز هوئیں اور رونے لگیں،دختر رسول کوروتا دیکھ کرتمام لوگوں پر گریہ طاری هوگیا،تسلی و تشفی دینے کے بعدمجمع کو خاموش کیاگیا، اور پھر جناب فاطمہ زھرا  (س) نے مجمع کو مخاطب کرتے هوئے فرمایا:

 

” تمام تعریفیں اس اللہ کے لئے ھیںجس نے مجھے اپنی بے شمار اوربے انتھا نعمتوں سے نوازا،میں شکر بجالاتی هوں اس کی ان توفیقات پرجواس نے مجھے عطا کیں، اورخدا کی حمدو ثنا ء کرتی هوں ان بے شمارنعمتوں پرجن کی کوئی انتھا نھیں، اورنہ ھی ان کاکوئی بدلاهوسکتاھے، ایسی نعمتیں جن کا تصور کرنا امکان سے باھر ھے، خدا چاھتا ھے کہ ھم اسکی نعمتوںکی قدر کریں تاکہ وہ ھم پر اپنی نعمتوں کا اضافہ فرمائے، ھمیں شکر کی دعوت دی ھے تاکہ آخرت میں بھی وہ ایسے ھی اپنی نعمتوں کا نزول فرمائے ۔

 

میں خدا کی وحدانیت کی گواھی دیتی هوں،وہ وحدہ لا شریک ھے، ایسی وحدانیت جس کی حقیقت اخلاص پر مبنی ھے اور جس کا مشاھدہ دل کی گھرائی سے هو تا ھے اوراس کے حقیقی معنی پر غور وفکر کرنے سے دل ودماغ روشن هوتے ھیں۔

 

 التّفکّر معقولھا،الممتنع من الا بصار روٴیتہ، ومن الاٴلسن صفتہ، ومن الا وھا م کیفیّتہ ،ابتدع الا شیاء لامن شیء کان قبلھا ،وانشاھا بلااحْتِذاء امثلةٍامْتثلھا،کوّ نھا بقدرتہ، وذراٴھابمشیتہ من غیرحا جةمنہ الی تکو ینھا ،ولا  فا ئدة لہ فی تصویر ھا، الا تثبیتا لحکمتہ ،وتنبیھاً علی طاعتہ، واظھاراً  لقدرتہ،تعبّداً لبر یتہ و اعزازالدعوتہ۔ ثم جعل الثواب علی طاعتہ ووضع العقاب علی معصیتہ ،زیادةلعبادہ من نقمتہ وحیاشة لھم الی جنتہ۔

 

واشھد ان ابی محمدا عبدہ و رسولہ، اختارہ قبل ان ارسلہ، (وسمّاہ قبل ان اجتباہ) واصطفاہ قبل ان ابتعثہ، اذ الخلائق بالغیب مکنونة وبسَتْرِ الاھاویل مصونة،وبنھایة العدم مقرونة ،علما من اللّٰہ تعالی بمایل الامُور واحاطة بحوادث الدّهور ومعرفة بمواقع الامور، ابتعثہ اللّٰہ اتما ماً لامرہ وعزیمةعلی امضاء حکمہ وانفاذ اً لمقادیررحمتہ فراٴی الاُ مم فر قاً فی ادیانھا،عُکفَّاًعلی نیرانھا وعابدةً لاٴوثانھا، منکرةللّٰہ مع عر فا نھا ۔

 

وہ خدا جس کو آنکھ کے ذریعہ دیکھانھیںجاسکتا،زبان کے ذریعہ اس کی تعریف وتوصیف نھیں کی جاسکتی ، جو وھم وگمان میں بھی نھیں آسکتا۔

 

وہ خدا جس نے ایسی ایسی موجوات خلق کی جن کی اس سے پھلے نہ کوئی نظیر ملتی ھے اور نہ کوئی مثال، اس نے اپنی مرضی ومشٴیت سے اس کائنات کو وجود بخشا بغیر اس کے کہ اسے اس کے وجود کی ضرورت هو، یا اسے اس کا کوئی فائدہ پهونچتا هو۔

 

بلکہ کائنات کواس نے اس لئے پیدا کیا تاکہ اپنے علم وحکمت کو ثابت کرسکے ،اپنی اطاعت کے لئے تیار کرسکے، اپنی طاقت وقدرت کا اظھار کرسکے، بندوںکواپنی عبادت کی تر غیب دلاسکے اور اپنی دعوت کی اھمیت جتاسکے؟

 

 اس نے اپنی اطاعت پر جزاء اورنافرمانی پر سزامعین کی ھے، تاکہ اپنے بندوں کوعذاب سے نجات دے ، اورجنت کی طرف لے جائے۔

 

میں گواھی دیتی هوں کہ میرے پدربزرگوارحضرت محمد،اللہ کے بندے اور  رسول ھیں، ان کو پیغمبری پر مبعوث کرنے سے پھلے اللہ نے ان کو چنا،(اوران کے انتخاب سے پھلے ان کا نام محمد رکھا)اوربعثت سے پھلے ان کا انتخاب کیا، جس وقت مخلوقات عالم غیب میں پنھاں تھیں، نیست ونابودی کے پردوں میں چھپی تھیں اورعدم کی وادیوں میں تھیں ،چونکہ خداوندعالم ھر شیٴ کے مستقبل سے آگاہ ، زمانے کے حوادثات سے با خبر اورقضا وقدر سے مطلع ھے۔

فاناراللّٰہ باٴبی محمد( صلی الله علیہ وآلہ وسلم)ظلمھا، وکشف عن القلوب بُہَمھا وجلی عن الابصار غُمَمھا وقام فی الناس بالھدایة،وفا نقذ ھم من الغوایة وبصّرھم من العمایة۔ وھداھم الی الدّ ین القویم، ودعا ھم الی الطریق المستقیم ۔

 

ثم قبضہ اللّٰہ الیہ قبض رافةواختیارور غبةوایثار، فمحمد(صلی الله علیہ وآلہ وسلم)من تعب ھذہ الدارفی راحة۔

 

قد حُفّ با لملائکة الابرار،ورضوان الرَّبِّ الغفار،ومجاورة الملک الجبار۔

 

صلی اللّٰہ علی اٴبی نبیّہ وامینہ، وخیرتہ من الخلق وصفیہ والسلام علیہ ورحمةاللّٰہ وبرکاتہ۔

 

خدا نے حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کومبعوث کیا تاکہ اپنے مقصد کو آگے بڑھائے، اپنے حتمی فیصلوں کو پایہٴ تکمیل تک پهونچائے اور لوگوں پر اپنی رحمت کو نازل کرے۔

 

(جب آپ مبعوث هوئے )تو لوگ مختلف ادیان میں بٹے هوئے تھے، کفر  و الحاد کی آگ میں جل رھے تھے، بتوں اور آگ کی پرستش کررھے تھے اورخدا کی شناخت کے بعد بھی اس کا انکار کیا کرتے تھے۔

 

حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے وجود مقدس سے تاریکیاںچھٹ گئیںجھالت ونادانیاںدلوں سے نکل گئیں، حیرتیں و سر گردانیاں آنکھوں سے اوجھل هوگئیں، میرے باپ نے لوگوںکی ھدایت کی اور ان کوگمراھی اور ضلالت سے نجات دی ، تاریکی سے نکال کر روشنی کی طرف لے کر آئے اور دین اسلام کی راہ دکھائی اور صراط مستقیم کی طرف رہنمائی کی۔

 

اس کے بعدخدانے اپنے پیغمبر کے اختیار،رغبت اورمھربانی سے ان کی روح قبض کی ،اس وقت میرا باپ اس دنیا کی سختیوں سے آرام میں ھے اوراس وقت فرشتوںاور رضایت غفّاراور ملک جبّارکے قرب میں زندگی گزاررھا ھے ،خدا کی طرف سے میرے باپ،نبی اور امین خدا،خیر خلق اورصفی خداپر درود و سلام اور اس کی رحمت هو۔

 

ثم ّ التفتت الیٰ اھل المجلس وقالت :

 

انتم عباداللّٰہ نصب امرہ ونھیہ، وحملة دینہ ووحیہ، وامناء اللّٰہ علی انفسکم ،وبلغاء ٴہ الی الاُمم زعیم حقّ لہ فیکم ،وعھد قدّمہ الیکم،ونحن بقیةاستخلفھا علیکم کتاب اللّٰہ الناطق ،والقرآن الصاد ق ، والنور الساطع،والضیاء اللامع ،بیّنة بصائرہ ،منکشفة  سرائرہ ، منجلیة ظواھرہ ،مغتبطة  بہ اشیاعہ،قائداً  الی الرضوان اتباعہ، مودٍّالیٰ النجاةاستماعہ،بہ تنال حجج اللّٰہ المنوّ رة،و عزائمہ المفسرة،  و محارمہ المحذّرة و بیّناتہ  الجالیة  وبراھینہ  الکافیة، و فضائلہ المندوبة ورخصہ الموهوبہ و شرائعہ المکتوبة ۔

 

فجعل اللّٰہ الایمان تطھیراًلکم من الشرک، والصلاة تنزیھاً لکم من الکبر،والزکاةتزکیةللنفس،ونماءً فی الرزق،والصیام تثبیتا للاخلاص، والحج تشییدا  للدین، والعدل تنسیقا للقلوب، وطاعتنا نظاماً للملّة،واِمَامتنا اٴماناًمن الفرقة،والجھاد عزًاللاسلام۔

 

اس کے بعدآپ نے مجمع کو مخاطب کرکے فرمایا:

 

 تم خدا کے بندے ،امرونھی کے پرچم دار اور دین اسلام کے عھدہ دار هو، اور تم اپنے نفسوں پر اللہ کے امین هو ، تم ھی لوگوںکے ذریعہ دوسری قوم تک دین اسلام پهونچ رھا ھے،تم نے گویا یہ سمجھ لیا ھے کہ تم ان صفات کے حقدارهو،اور کیا اس سلسلہ میں خدا سے تمھارا کوئی عھد وپیمان ھے؟  حالانکہ ھم بقیة اللهاور قرآن ناطق ھیںوہ کتاب خدا جو صادق اور چمکتا هوا نور ھے جس کی بصیرت روشن ومنور اوراس کے اسرار ظاھر ھےں، اس کے پیرو کارسعادت مندھیں،اس کی پیروی کرنا ،انسان کوجنت کی طرف ھدایت کرتاھے ،اس کی باتوںکوسننا وسیلہٴ نجات ھے اوراس کے بابرکت وجودسے خدا کی نورانی حجتوں تک رسائی کی جاسکتی ھیں اس کے وسیلہ سے واجبات ومحرمات، مستحبات ومباھات اورقوانین شریعت حاصل هو سکتے ھیں۔

 

خدا وندعالم نے تمھارے لئے ایمان کو شرک سے پاک هونے کا وسیلہ قرار دیا، نمازکو تکبر سے بچنے کے لئے،زکوة کووسعت رزق اورتزکیہ ٴنفس کے لئے، روزہ کواخلاص کے لئے،حج کودین کی بنیادیں استوار کرنے کے لئے، عدالت کونظم زندگی اور دلوںکے آپس میں ملانے کے لئے سبب قرار دیا ھے۔

 

وذلاً لاھل الکفر والنفاق والصبر معونة  علی استیجاب الاجر ،والامر بالمعروف والنھی  عن المنکر مصلحة للعامّة،وبرّ الوالدین وقایةًمن السخط ،وصلةالارحام منساٴة فی العمر ومنماة للعدد والقصاص حقناً  للدماء والوفاء بالنذر تعریضا للمغفرة،وتوفیةالمکاییل والموازین تغیراً للبخس ،والنھی عن شرب الخمرتنزیھاًعن الرجس، واجتناب القذف حجاباعن اللعنة وترک السرقةایجاباًللعفةوحرم اللّٰہ الشرک اخلاصا لہ بالربوبیة۔

 

<فاتقوا اللّٰہ حق تقاتہ ولاتمو تن الاّ وانْتم مسلمون>[1]

 

واطیعوااللّٰہ فیما امرکم بہ ونھا کم عنہ ۔

 

<انمایخشی اللّٰہ من عبادہ العلماء>[2]

 

ثم قالت :  ایھاالناس اعلموا انّی فاطمة ،وابی محمد (صلی الله علیہ وآلہ وسلم ) اقول عوداً وبدواً  اٴولا اقول مااقول غلطا،ولاافعل ماافعل شططا۔

 

 اورھماری اطاعت کو نظم ملت اور ھماری امامت کوتفرقہ اندازی سے دوری، جھاد کو عزتِ اسلام اور کفار کی ذلت کاسبب قرر دیا،اور صبر کو ثواب کے لئے مددگارمقرر کیا،امر بالمعروف و نھی عن المنکرعمومی مصلحت کے لئے اور والدین کےساتھ نیکی کو غضب سے بچنے کاذریعہ اورصلہ رحم کو تاخیر موت کاوسیلہ قراردیا ،قصاص اس لئے رکھاتاکہ کسی کوناحق قتل نہ کرونیزنذر کوپوراکرنے کوگناھگاروںکی بخشش کاسبب قرار دیااورپلیدی اورپست حرکتوںسے محفوظ رہنے کے لئے شراب خوری کوحرام کیا،زنا کی نسبت دینے سے اجتناب کو لعنت سے بچنے کا ذریعہ بنایا ،چوری نہ کرنے کوعزت وعفت کا ذریعہ قرار دیا، خدا کے ساتھ شرک کوحرام قرار دیا تاکہ اس کی ربو بیت کے بارے میں اخلاص باقی رھے۔

”اے لوگو!       تقویٰ وپرھیز گاری کواپناؤ اور تمھارا خاتمہ اسلام پر هو“

 

اوراسلام کی حفاظت کروخدا کے اوامرونواھی کی اطاعت کرو۔

 

”اورخدا سے صرف علماء ڈرتے ھیں ۔“

 

اس کے بعد جناب فاطمہ زھرا نے فرمایا:

 

 اے لوگو!  جان لو میں فاطمہ هوں، میرے باپ حضرت محمد مصطفی  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تھے،  میری پھلی اور آخری بات یھی ھے ،جو میں کہہ رھی هوں وہ غلط نھیں ھے اور جو میں انجام دیتی هوں بے هودہ نھیں ھے۔

 

<لقدجائکم رسول من انفسکم عزیز علیہ ماعنتم حر یص علیکم بالمومنین روف رحیم ۔>[3]

 

فانْ تَعزُوہُ وتعرفوہ  تَجدوہ ابی دون نسائکم،واخاابن عمّی دون رجالکم ولنعم المعزیُِّ الیہ صلی الله علیہ و آلہ وسلم  ۔

 

   فبلّغ الرّسالةصادعاََََبالنَّذارةِ ،مائلاَعن مدرجةالمشرکین ضارباثبجھم، آخذاًباٴ کظامھمْ داعیاًالی سَبیلِ ربّہ بالحکمة والموعظة  الحسنة یجفّ الاصنام وینکث الھام حتیٰ انھزم الجمع وولّواالدّبر حتی تفرّی اللیل عن صبحہ واَسفر الحقّ عن محضہ و نطق زعیم الدین وخرست شقاشق الشّیاطین وطاح وشیظ النّفاق وانحلّت عقد الکفر والشّقاق وفھتم بکلمة الاخلاص و فی نفر من البیض الخماص ۔

 

 وکنتم علی شفا حفرة من النّار مذقة الشارب و نُھزة الطّامعٍ وقبسةالعجلان و موطیٴ الاقدام تَشربون الطَّرق وتقتاتون القدّ اَذلّةًخاسیٴن تخافون ان یتخطّفکم النّاس من حولکم۔

 

”خدانے تم ھی میںسے پیغمبر کو بھیجاتمھاری تکلیف سے انھیںتکلیف هوتی تھی وہ تم سے محبت کرتے تھے اورمومنین کے حق میں دل سوز وغفورورحیم تھے۔“

وہ پیغمبر میرے باپ تھے نہ کہ تمھاری عورتوں کے باپ،میرے شوھر کے چچازاد بھائی تھے نہ کہ تمھارے مردوںکے بھائی،اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے منسوب هونا کتنی بھترین نسبت اور فضیلت ھے۔

 

انھوں نے دین اسلام کی تبلیغ کی اور لوگوں کوعذاب الٰھی سے ڈرایا، اورشرک پھیلانے والوں کا سد باب کیاان کی گردنوںپرشمشیرعدالت رکھی اورحق دبانے والوںکا گلادبادیاتاکہ شرک سے پرھیز کریں ا ور توحید وعدالت کوقبول کریں۔

 

اپنی وعظ و نصیحت کے ذریعہ خداکی طرف دعوت دی،بتوں کو توڑااور ان کے سروں کوکچل دیا،کفارنے شکست کھائی اورمنھ پھیر کر بھاگے ،کفر کی تاریکیاں دور هوگئیں اورحق مکمل طور سے واضح هوگیا،دین کے رھبر کی زبان گویاهوئی اورشیاطین کی زبانوں پر تالے پڑ گئے ، نفاق کے پیروکار ھلاکت و سر گردانی کے قعر عمیق میں جا گرے کفر و اختلاف اور نفاق کے مضبوط بندھن ٹکڑے ٹکڑے هوگئے۔

 

(اور تم اھلبیت (ع) کی وجہ سے) کلمہ شھادت زبان پر جاری کرکے لوگوں کی نظروں میں سرخ رو هوگئے ،درحالانکہ تم دوزخ کے دھانے پر اس حالت میںکھڑے تھے کہ جیسے پیاسے شخص کے لئے پانی کا ایک گھونٹ اور بھو کے شخص کے لئے روٹی کا ایک تر لقمہ، اور تمھارے لئے شعلہ جہنم اس راہ گیر کی طرح جستجو میں تھاجو اپنا راستہ تلاش کرنے کے لئے آگ کی راہنمائی چاھتا ھے۔

 

فانقذکم اللّٰہ تبارک وتعالیٰ بابی محمد(صلی الله علیہ آلہ وسلم) بعد اللتیا والتی،و بعد ان مُنی ببُھم الرجال وذوبان العرب ومردة  اھل الکتاب <کلما اوقدوانارا للحرب اطفاٴھا اللّٰہ>[4]

 

او نجم قرن الشیطان ،او فغرت فاغرة من المشرکین قذف اخاہ علیاًفی لهواتھا،فلا ینکفیء حتی یطاٴجناحھا باخمصہ ،ویخمد لھبھا بسیفہ مکدودا فی ذات اللّٰہ، مجتھدَا فی امر اللّٰہ قریباً من رسول اللّٰہ ،سیدا فی اولیاء اللّٰہ، مشمّرا ناصحاً ،مجداً کادحاً لاتاخذہ فی الله لومة لائم  وانتم فی رفا ھیة من العیش وادعون فاکهون ، آمنون تتربصون بنا الدوائر، وتتوکفون الاخبار ،وتنکصون عند النّزال،وتفرون من القتال۔

 

تم قبائل کے نحس پنجوںکی سخت گرفت میں تھے گندا پانی پیتے تھے اور حیوانوںکو کھال سمیت کھا لیتے تھے،اور دوسروں کے نزدیک ذلیل وخوارتھے اوراردگردکے قبائل سے ھمیشہ ھراساںتھے۔

 

یھاں تک خدا نے میرے پدر بزرگوار محمدمصطفےٰ (ص)کے سبب ان تمام چھوٹی بڑی مشکلات کے باوجود جو انھیں درپیش تھی ،تم کو نجات دی، حالانکہ میرے باپ کو عرب کے بھیڑئے نماافراد اوراھل کتاب کے سرکشوںسے واسطہ تھا ”لیکن جتنا وہ جنگ کی آگ کو بھڑ کا تے تھے خدا اسے خاموش کر دتیا تھا“ اور جب کو ئی شیاطین میں سے سر اٹھا تا یا مشرکوں میںسے کوئی بھی زبان کھولتاتھا توحضرت محمد اپنے بھائی (علی) کوان سے مقابلہ کے لئے بھیج دیتے تھے، اورعلی (ع)اپنی طاقت وتوانائی سے ان کو نیست ونابود کردیتے تھے اور جب تک ان کی طرف سے روشن کی گئی آگ کو اپنی تلوارسے خاموش نہ کردیتے میدان جنگ سے واپس نہ هوتے تھے۔

 

(وہ علی (ع)) جو اللہ کی رضاکے لئے ان تمام سختیوںکاتحمل کرتے رھے اورخدا کی راہ میں جھاد کرتے رھے ،رسول اللہ(ص)کے نزدیک ترین فرد اور اولیاء اللہ کے سردار تھے ھمیشہ جھاد کے لئے آمادہ اور نصیحت کرنے کے لئے جستجو میں رھتے تھے، لیکن تم اس حالت میںآرام کے ساتھ خوش وخرم زندگی گزارتے تھے،(اور ھمارے لئے کسی بری) خبرکے منتظررھتے تھے اوردشمن کے مقابلہ سے پرھیز کرتے تھے نیز جنگ کے وقت میدان سے فرارهوجایا کرتے تھے ۔

 

فلما اختار اللّٰہ لنبیّہ دار انبیائہ وماوی اصفیائہ، ظھرت  فیکم حسیکةُ النفاق،وسمل جلباب الدین ،ونطق کاظم الغاوین ،ونبغ خامل الاقلین ،وھدر فنیق المبطلین، فخطر فی عرصاتکم ، واطلع الشیطان راسہ من مغرزہ ھاتفا بکم،فالفاکم لدعوتہ مستجیبین ، وللعزة فیہ ملاحظین ،ثم استنہضکم فوجدکم خفافا واحمشکم فالفاکم غضابا ، فوسمتم غیر ابلکم ،واوردتم غیر مشربکم، ھذا والعھد قریب،  والکلم رحیب، والجرح لما یندمل، والرسول لما یقبر،ابتداراً  زعمتم خوف الفتنة۔[5]

فھیھات منکم   وکیف بکم   وانی توٴفکون ، و ھذا کتاب اللّٰہ بین اظھرکم، اٴمورہ ظاھرة، واحکامہ زاھرة، واعلامہ باھرة وزواجرہُ لائحة  واوامرہ واضحة قد خلفتموہ وراء ظهورکم ارغبة عنہ تریدون؟ ام بغیرہ تحکمون ؟ <بئس للظالمین بدلا >[6]

 

جب خدا نے اپنے رسولوں اور پیغمبروںکی منزلت کو اپنے حبیب کے لئے منتخب کرلیا، تو تمھارے اندر کینہ اور نفاق ظاھر هوگیا،لباس دین کہنہ هوگیا اور گمراہ لوگوں کے سِلے منھ گھل گئے، پست لوگوںنے سر اٹھالیا، باطل کااونٹ بولنے لگااور تمھارے اندر اپنی دم ھلانے لگا، شیطان نے اپنا سر کمین گاہ سے باھرنکالااورتمھیں  اپنی طرف دعوت دی، تم کو اپنی دعوت قبول کرنے کے لئے آمادہ پایا ، وہ تم کو دھوکہ دینے کا منتظر تھا، اس نے ابھارا اورتم حرکت میںآگئے اس نے تمھیں غضبناک کیا، تم غضبناک هوگئے وہ اونٹ جو تم میںسے نھیں تھا تم نے اسے علامت دار بناکر اس جگہ بٹھادیا جس کا وہ حق دار نہ تھا ،حالانکہ ابھی پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی موت کوزیادہ وقت نھیں گزراتھا اور ھمارے زخم دل نھیں بھرے تھے ، زخموں کے شگاف بھرے نھیں تھے ،ابھی پیغمبر  (ص)کو دفن بھی نھیں کیا تھا کہ تم نے فتنہ کے خوف کے بھانے سے خلافت پر قبضہ جمالیا ”لیکن خبرداررهو کہ تم فتنہ میں داخل هوچکے هو اور دوزخ نے کافروںکا احاطہ کرلیا ھے “۔

 

افسوس تمھیں کیا هوگیا ھے اور تم نے کونسی ڈگراختیارکرلی ھے حالانکہ اللہ کی کتاب تمھارے درمیان موجود ھے اوراس کے احکام واضح اوراس کے امرونھی ظاھرھیں تم نے قرآن کی مخالفت کی اور اسے پس پشت ڈال دیا، کیا تم قرآن سے روگردانی اختیارکرنا چاھتے هو؟یا قرآن کے علاوہ کسی دوسری چیز سے فیصلہ کرنا چاھتے هو؟

----------------------------

[1]سورہ آل عمران آیت ۱۰۲

 

[2]سورہ فاطر-آیت ۲۸

 

[3]سورہ توبہ آیت ۱۲۸

 

[4]سورہ مائدہ آیت ۶۴

 

[5]<اٴلا فی الفتنة سقطوا وان جہنم لمحیطة بالکافرین۔> (سورہ توبہ ۴۹)

 

[6]سورہ کہف آیت ۵۰