امام کی ثابت قدمی

امام(ع) تن تنھا میدان میں دشمنوں کے سامنے کھڑے رھے اور بڑے بڑے مصائب کی وجہ سے آپ کے ایمان و یقین میں اضافہ ھوتارھا آپ(ع) مسکر ارھے تھے اور آپ(ع) کو فردوس اعلیٰ کی منزلوں پر اعتماد تھا۔نہ آ پ(ع) کی اولاد ،اھل بیت(ع) اور اصحاب کے شھید ھو جانے سے آپ(ع) کی استقامت و پائیداری میں کو ئی کمی آئی اور نہ ھی پیاس کی شدت اور خون بہہ جانے کا آپ(ع) پر کو ئی اثر ھوا آپ(ع) ان انبیاء اوراولی العزم رسولوں کی طرح ثابت قدم رھے جن کو اللہ نے اپنے بقیہ بندوں پر برتری دی ھے ، آپ(ع) کے فرزند ارجمند امام زین العابدین(ع) اپنے پدر بزرگوار کے صبر اوراستقامت کے سلسلہ میں فرماتے ھیں:” جیسے جیسے مصائب میں شدت ھو تی جا رھی تھی آپ(ع) کے چھرے کا رنگ چمکتا جا رھا تھا ، آپ(ع) کے اعضاو جوارح مطمئن ھو تے جا رھے تھے ،بعض لوگ کہہ رھے تھے : دیکھو انھیں مو ت کی بالکل پروا نھیں ھے “۔[1]

عبد اللہ بن عمار سے روایت ھے :جب دشمنوں نے جمع ھو کر آپ پر حملہ کیا تو آپ(ع) نے میمنہ پر حملہ کیایھاں تک کہ وہ آپ(ع) سے شکست کھا گئے خدا کی قسم میںنے کسی ایسے شخص کو نھیں دیکھا جس کی اولاد اور اصحاب قتل کر دئے گئے ھوں اور امام جیسی بلند ھمتی کامظاھرہ کرسکے، خدا کی قسم میں نے آپ سے پھلے اور آپ(ع) کے بعد آپ(ع) کے جیسا کو ئی شخص نھیں دیکھا۔[2]

ابن خطاب فھری نے آپ(ع) کی جنگ کی یوں تصویر کشی کی ھے :

 

”مھلا بني عمِّنا ظُلمَاتنا

 

اِنَّ بِنَا سُوْرَةً مِنَ القَلَق

لِمثلکم تُحملُ السیوفُ وَلا

 

تُغمزُاَحْسَابُنَامِنَ الرَّفَقِ

اِنِّيْ لَاَنْسیٰ اِذَاانْتَمَیْتُ اِلیٰ

 

عِزٍّ عَزِیْزٍ وَمَعْشَرٍصَدِق

بَیْضٍ سِبَاطٍ کَاَنَّ اَعْیُنَھُمْ

 

تَکَحَّلُ یَوْ مَ الھِیَاجِ بِالْعَلَقِ“[3]

 ”اے ھمارے چچا کی اولاد ،ھم پر ظلم کرنے سے باز آجاؤ کیونکہ ھم اضطراب میں مبتلا ھیں ۔

تمھارے جیسے افراد کی وجہ سے تلواریں ساتھ رکھی جا تی ھیںورنہ عطوفت و مھربانی اوررحم وکرم ھمارے ضمیر میں بساھے  ۔

جب مجھے کسی صاحب عزت اور سچی جماعت کے ساتھ منسوب کیا جاتا ھے تو میں فراموش کر دیتا ھوں ۔

اس جماعت کی آنکھوں میں اس دن جمے ھوئے خون کا سرمہ نظر آتا ھے “۔

آپ(ع) نے اللہ کے دشمنوں پر حملہ کیا، ان کے ساتھ شدید جنگ کی اور بہت زیادہ لوگوں کو فی النار کیااور جب آپ(ع) نے میسرہ پر حملہ کیا تو یوں رجز پڑھا:

”اَنا الحسین ُ ابن ُ علي

 

آلیتُ اَنْ لَا اَنْثَنِي

 

اَحْمِیْ عِیَالَاتِ اَبِيْ

 

اَمْضِيْ عَلیٰ دِیْنِ النَّبِي“[4]

”میں حسین بن علی(ع)ھوںمیں نے ذلت کے سامنے نہ جھکنے کی قسم کھا ئی ھے ۔

میں اپنے پدر بزرگوار کی ناموس کی حفاظت کروں گامیں نبی کے دین پر قائم رھوں گا “ ۔

آپ(ع)( حسین ) نے دنیا کے منھ کو شرافت و بزرگی سے پُر کردیا ،آپ(ع) دنیا میں یکتا ھیں جن کے عزم و حو صلہ کی تعریف نھیں کی جا سکتی ،آپ(ع) نے گریہ وزاری نھیں کی اور نہ ھی کسی کام میں سستی کی ،آپ(ع) نے دشمنوں کا مقابلہ کرکے ظالموں اور منافقوں کے قلعوں کو ھلاکر رکھ دیا ۔

آپ(ع) اپنے جد رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے راستہ پر گامزن رھے ، اس دین کے تجدّد کا باعث ھوئے ، اگر آپ(ع) نہ ھوتے تو وہ مبھم رہ جاتا اور اس کو حقیقی زندگی نہ ملتی۔۔۔

ابن حجر سے مروی ھے کہ امام حسین(ع) جنگ کرتے جا رھے تھے اور آپ(ع) کی زبان مبارک پر یہ اشعار جاری تھے :

”انابن عليِّ الحُرِّمِنْ آلِ

کَفَانِيْ ھٰذَا مَفْخَراً حِیْنَ اَفْخَرُ

 

وَجَدِّيْ رَسُولُ اللّٰہِ اَکْرَمُ مِنْ

 

وَنَحْنُ سِرَاجُ اللّٰہِ فِي النَّاسِ

وَفَاطِمَةُ اُمِّيْ سُلَالَةُ

 

وَعَمي یُدْعیٰ ذُوْ الجَنَاحَیْنِ

وَفِیْنَا کِتَابُ اللّٰہِ اُنْزِلَ

وَفِیْنَا الھُدیٰ وَالْوَحْيُ وَالْخَیْرُ یُذْکَرُ‘ ‘ [5]

  ”میں فرزند علی(ع) ھوں ،آزاد ھوں ،بنی ھاشم میں سے ھوں ،میرے لئے فخر کرنے کے لئے یھی کافی ھے ۔

میرے نانا رسول خدا ،افضل مخلوقات ھیں ھم لوگوں میں نورا نی رھنے والے خدا کے چراغ ھیں ۔

میری ماں فاطمہ  = بنت رسول ھیں اورمیرے چچا جعفر طیارھیںجن کو ذو الجناحین کھاجاتاھے۔

ھماری ھی شان میں قرآن نازل ھوا،ھم ھی ھدایت کا ذریعہ ھیں وحی اور خیر(بھلا ئی) ھمارے ھی پاس ھے “ ۔

**********

[1] الخصائص الحسینیہ مولف تستری ،صفحہ ۳۹۔

[2] تاریخ ابن کثیر،جلد ۸،صفحہ ۱۸۸۔

[3] ریحانة الرسول، صفحہ ۶۴میں آیا ھے کہ بڑے تعجب کی بات ھے کہ جس نے بھی ان اشعار کو مثال کے طور پر پیش کیا وہ قتل کردیا گیاحضرت امام حسین علیہ السلام نے ان اشعار کو یو م الطف ،زید بن علی نے یوم السبخہ اور یحییٰ بن زید نے یوم جوزجان میں ،اور جب ابراھیم بن عبد اللہ بن الحسن نے منصور کے خلاف خروج کرتے وقت ان اشعار کو مثال کے طور پر پیش کیا تو ان کے ساتھیوں نے ان سے بغاوت کی اور کچھ مدت نھیں گذری تھی کہ ان کو تیر مارکر موت کے گھاٹ اتاردیا۔

[4] مناقب ابن شھر آشوب، جلد ۴،صفحہ ۲۲۳۔

[5] صواعق محرقہ، صفحہ ۱۱۷۔۱۱۸۔جوھرة الکلام فی مدح السادة الاعلام، صفحہ ۱۱۹۔