شیر خوار کی شھادت

ابو عبد اللہ کے صبر جیسا کو ن سا صبر ھو سکتا ھے ؟آپ(ع) نے یہ تمام مصائب کیسے برداشت کئے؟ آپ(ع) کے صبرسے کا ئنات عاجز ھے ،آپ(ع) کے صبر سے پھاڑکانپ گئے، آپ(ع) کے نزدیک سب سے زیادہ دردناک مصیبت آپ(ع) کے فرزند عبد اللہ شیر خوار کی مصیبت تھی جو بدر منیر کے مانند تھا،آپ(ع) نے اس کو آغوش میں لیا بہت زیادہ پیار کیا آخری مرتبہ الوداع کیا ،اس پر بیھوشی طاری تھی ،آنکھیں نیچے دھنس گئی تھیں، ھونٹ پیاس کی وجہ سے خشک ھو گئے تھے ،آپ نے اس کوھاتھوںپرلیا اور آفتاب کی تمازت سے بچانے کےلئے اس پرعبا کا دامن اڑھاکر قوم کے سامنے لے گئے، شاید وہ رحم کھا کر اس کوایک گھونٹ پانی پلا دیں،آپ نے ان سے بچہ کے لئے پا نی طلب کیا،ان مسخ شدہ لوگوں کے دل پر کو ئی اثر نھیں ھوا،باغی لعین حرملہ بن کاھل نے چلہ کمان میں تیر جوڑا،اس نے ھنستے ھوئے اپنے لعین دوستوں کے سامنے فخر کرتے ھوئے کھا :اس کو پکڑو ابھی پانی پلاتا ھوں ۔

(اے خدا !)اس نے بچہ کی گردن پر تیر مارا جیسے ھی بچہ کی گردن پر تیر لگا تو اس کے دونوں ھاتھ قماط (نو زائیدہ بچہ کے لپیٹنے کا کپڑا)سے باھر نکل گئے ، بچہ اپنے باپ کے سینہ پر ذبح کئے ھوئے پرندے کی طرح تڑپنے لگا ،اس نے آسمان کی طرف سر اٹھایااور باپ کے ھاتھوں پر دم توڑدیا۔۔۔یہ وہ منظر تھا جسے دیکھ کر دل پھٹ جاتے ھیں اور زبانوں پر تالے لگ جاتے ھیں،امام نے پاک خون سے بھرے ھوئے اپنے دونوں ھاتھوں کو آسمان کی طرف اٹھاکر وہ خون آسمان کی جانب پھینک دیااور ایک قطرہ بھی واپس زمین پر نہ آیا، جیسا کہ امام محمد باقر(ع)کا فرمان ھے کہ امام(ع) نے اپنے پرور دگار سے یوں مناجات فرما ئی :

”ھوّن۔۔۔“”میری مصیبتیں اس بنا پر آسان ھیں کہ اُن کو خدا دیکھ رھا ھے ،خدایا تیرے نزدیک یہ مصیبتیں ناقہ صالح کی قربانی سے کم نھیں ھونا چا ہئیں خدایا اگر تونے ھم سے کا میابی کو روک رکھا ھے تو اس مصیبت کو بہترین اجر کا سبب قرار دے ، ظالمین سے ھمارا انتقام لے ،دنیا میں نازل ھونے والی مصیبتوں کو آخرت کےلئے ذخیرہ قرار دے ،خدایا تو دیکھ رھا ھے کہ اِن لوگوں نے تیرے رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی شبیہ کو قتل کر ڈالا ھے “۔

امام حسین(ع) اپنے مر کب سے نیچے تشریف لائے اور اپنے پاک خون میں لت پت شیرخوار بچہ کے لئے تلوار کی نیام سے قبر کھودکر اس میں دفن کردیا ایک قول یہ ھے کہ آ پ(ع) نے شیر خوار کو شھداء کے برابر میں لٹادیا[1] اے حسین(ع) !خدا نے آپ(ع) کو اِن مصیبتوں کو برداشت کرنے کا حوصلہ دیا ،ایسی مصیبت کے ذریعہ کسی نبی کا امتحان نھیں لیا گیا اور ایسی مصیبتیں روئے زمین پر کسی مصلح پرنھیں پڑیں ۔

**********

[1] مقتل الحسینِ مقرم، صفحہ ۳۳۳۔