وعظ و ارشاد

امام حسین(ع) ھمیشہ لوگوں کو وعظ و نصیحت کرتے تھے جیسا کہ آپ(ع) سے پھلے آپ(ع) کے پدربزرگوار لوگوں کو وعظ و نصیحت فر ماتے تھے ،جس سے ان کا ھدف لوگوں کے دلوں میں اچھا ئی کی رشد و نمو کر نا ،ان کو حق اور خیر کی طرف متوجہ کرنا اور ان سے شر ،غرور اورغصہ وغیرہ کو دور کر نا تھا۔ ھم ذیل میں آپ(ع) کی چند نصیحت بیان کر رھے ھیں :

امام(ع) کا فر مان ھے :”اے ابن آدم !غوروفکر کر اور کہہ :دنیا کے بادشاہ اور ان کے ارباب کھاں ھیںجو دنیامیں آباد تھے انھوں نے زمین میں بیلچے مارے اس میں درخت لگائے ،شھروں کو آباد کیا اور سب کچھ کر چلے گئے جبکہ وہ جانا نھیں چا ہتے تھے ،ان کی جگہ پر دوسرے افراد آگئے اور ھم بھی عنقریب اُن کے پاس جانے والے ھیں ۔

اے فرزند آدم! اپنی موت کو یاد کر اور اپنی قبر میں سونے کو یاد رکھ اور خدا کے سامنے کھڑے ھونے کو یاد کر ،جب تیرے اعضاء و جوارح تیرے خلاف گواھی دے رھے ھوں گے اور اس دن قدم لڑکھڑا رھے ھوں گے ،دل حلق تک آگئے ھوں گے، کچھ لوگوں کے چھرے سفید ھوں گے اور کچھ رو سیا ہ ھوں گے، ھر طرح کے راز ظا ھر ھو جا ئیں گے اور عدل و انصاف کے مطابق فیصلہ ھوگا ۔

اے فرزند آدم ! اپنے آباء و اجداد کو یاد کر اور اپنی اولاد کے بارے میں سوچ کہ وہ کس طرح کے تھے اور کھاں گئے اور گویا عنقریب تم بھی اُ ن ھی کے پاس پھنچ جا ؤ گے اور عبرت لینے والوں کے لئے عبرت بن جا ؤ گے “۔

پھر آپ نے یہ اشعارپڑھے :

 

این الملوک التی عن حفظھا غفلت

حتیٰ سقاھا بکاس الموت ساقیھا؟

تلک المدائن فی الآفاق خالیة

 

عادت خراباًوذاقَ الْمَوْتِ بَانِیْھَا

اَموالنا لذوي الورّاثِ نَجْمَعُھَا

 

ودُورُنا لخراب الدھر نَبْنِیْھَا“[2]

”وہ بادشاہ کھاں گئے جو ان محلوں کی حفاظت سے غافل ھو گئے یھاں تک کہ موت نے اُن کو اپنی آغوش میں لے لیا ؟

وہ دور دراز کے شھر ویران ھو گئے اور ان کو بسانے والے موت کا مزہ چکھ چکے ۔

ھم دولت کووارثوں کے لئے اکٹھا کرتے ھیںاور اپنے گھر تباہ ھونے کے لئے بناتے ھیں “۔

یہ بہت سے وہ وعظ و نصیحت تھے جن سے آپ(ع) کا ھدف اور مقصد لوگوں کی اصلاح ان کو تہذیب و تمدن سے آراستہ کرنا اور خواھشات نفس اور شر سے دور رکھنا تھا ۔

**********

[1] الارشاد (دیلمی )،جلد ۱،صفحہ ۲۸۔