امام کی اللہ سے مناجات

ان آخری لمحوں میں امام(ع) نے خدا وند عالم سے لو لگا ئی ،اس سے مناجات کی ، خدا کی طرف متوجہ قلب سے تضرع کیا اور تمام مصائب و آلام کی پروردگار عالم سے یوں شکایت فر ما ئی :

”صبراًعلیٰ قضائکَ لاالٰہ سواکَ،یاغیاث المستغیثین،مالي ربُّ سواکَ ولامعبودُغیرُکَ ،صبراًعلیٰ حُکمِکَ،یاغیاثَ مَنْ لاغیاثَ لَہُ، یادائما لانفادلہ، یامحیيَ الموتیٰ،یاقائماعلیٰ کلِّ نفسٍ،احکُم بیني وبینھم ْ وانتَ خیر ُالحاکمِیْنَ “۔[1]

”پروردگارا !میںتیرے فیصلہ پر صبر کرتا ھوں تیرے سوا کو ئی خدا نھیں ھے ،اے فریادیوں کے فریاد رس،تیرے علاوہ میرا کو ئی پر وردگار نھیں اور تیرے سوا میرا کو ئی معبود نھیں ،میں تیرے حکم پر صبر کرتا ھوں، اے فریادرس! تیرے علاوہ کو ئی فریاد رس نھیں ھے ،اے ھمیشہ رھنے والے تجھے فنا نھیں ھے، اے مردوں کو زندہ کرنے والے ،اے ھر نفس کو باقی رکھنے والے ،میرے اور ان کے درمیان فیصلہ کراور تو سب سے اچھا فیصلہ کر نے والا ھے “۔

یہ دعا اس ایمان کا نتیجہ ھے جو امام(ع) کے تمام ذاتیات کے ساتھ گھل مل گا تھا یہ ایمان آپ کی ذات کا اھم عنصرتھا ۔۔۔آپ(ع) اللہ سے لو لگائے ر ھے ،اس کی قضا و قدر (فیصلے )پر راضی رھے ،تمام مشکلات کو خدا کی خاطر برداشت کیا،اس گھرے ایمان کی بناپرآپ(ع) تمام مشکلات کو بھول گئے ۔

ڈاکٹر شیخ احمد وا ئلی اس سلسلہ میں یوں کہتے ھیں :

یا ابا الطف وازدھیٰ  بالضحایا

مِن ادیم الطفوف روض

نُخبَة مِن صحابةٍ

 

ورضیعُ مُطوَّ قُ وَ شَبُوْلُ

وَالشَّبَابُ الفَیْنَانُ جَفَّ فَغَاضَتْ

 

نَبْعَةُ حُلْوَةُ وَوَجْہُ جَمِیْلُ

وتَاَمَّلْتُ فِيْ وُجُوْ ہِ

وَزَوَاکِيْ الدِّمَاءِ مِنْھَا تَسِیْلُ

وَمَشَتْ فِيْ شِفَاھِکَ الْغُرِّنَجْویٰ

 

نَمَّ عَنْھَاالتَّسْبِیْحُ والتَّھْلِیْلُ

لَکَ عُتْبِیْ یَا رَبِّ اِنْ کَانَ َ

 

فَھٰذَا اِلیٰ رِضَاکَ قَلِیْلُ[2]

”اے کربلا کے سورما اے وہ ذات جس کی قربانیوں کی بنا پر سر زمین کربلا سر سبز و شاداب ھو گئی ۔

آپ(ع) کے ساتھی برگزیدہ تھے ،ان میں شیر خوار تک تھا آپ(ع) کے ساتھی قابل رشک جوان تھے۔

میں نے آپ(ع) کی قربانی پر غور کیاحالانکہ اس سے خون بہہ رھا تھا۔

آپ زیر لب بھی تسبیح و تھلیل میں مشغول رھے۔

اے پروردگاریہ میری ناچیز کو شش ھے گر قبول افتد زھے عزّ و شرف“  ۔

**********

[1] مقتل الحسین المقرم ،صفحہ ۳۴۵۔

[2] دیوانِ وائلی ،صفحہ ۴۲۔