آپ(ع) کی اھل بیت(ع)سے آخری رخصت

مام حسین(ع) اپنے اھل بیت(ع)سے آخری رخصت کے لئے آئے حالانکہ آپ(ع) کے زخموں سے خون جاری تھا ،آپ(ع) نے حرم رسالت اور عقائل الوحی کو مصیبتوں کی چادر زیب تن کرنے اور ان کو تیاررھنے کی وصیت فرما ئی ،اور ان کو ھمیشہ اللہ کے فیصلہ پر صبر و تسلیم کا یوںحکم دیا:”مصیبتوں کے لئے تیار ھوجاؤ ،اور جان لو کہ اللہ تمھارا حامی،و مددگاراورمحافظ ھے اور وہ عنقریب تمھیں دشمنوں کے شر سے نجات دے گا ،تمھارے امر کا نتیجہ خیر قراردے گا ،تمھارے دشمنوں کو طرح طرح کے عذاب دے گا ، ان مصیبتوں کے بدلے تمھیں مختلف نعمتیں اور کرامتیں عطا کرے گا ،تم شکایت نہ کرنا اور اپنی زبان سے ایسی بات نہ کھنا جس سے تمھاری قدر و عزت میں کمی آئے “۔[1]

حکومتیں ختم ھو گئیں ،بادشاہ چلے گئے ،موجودہ چیزیں فنا ھو گئیں لیکن اس کا ئنات میں یہ لامحدود ایمان ھمیشہ باقی رھنے کے لائق و سزاوار ھے، کون انسان اس طرح کی مصیبتوں کو برداشت کرنے کی طاقت رکھتا ھے اور اللہ کی رضا اور تسلیم امر کےلئے بڑی گرمجوشی کے ساتھ ان کا استقبال کرتا ھے ؟ بیشک رسول اعظم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی نظرمیںحسین(ع) کے علاوہ ایسا کارنامہ انجام دینے والی کو ئی ذات و شخصیت نھیں ھے ۔

جب آپ(ع) کی بیٹیوں نے آپ(ع) کی یہ حالت دیکھی تو ان پر حزن و غم طاری ھو گیا، انھوں نے اسی حالت میں امام(ع) کو رخصت کیا ،ان کے دلوں پر خوف طاری ھو گیا ،رعب کی وجہ سے ان کا رنگ متغیر ھوگیا،جب آپ(ع) نے ان پر نظر ڈالی تو آپ(ع) کا دل غم میں ڈوب گیاان کے بند بند کا نپ گئے ۔

علامہ کاشف الغطا کہتے ھیں : وہ کون شخص ھے جوامام حسین(ع)کے مصائب کی تصویر کشی کرے جو مصیبتوں کی امواج تلاطم میں گھرا ھو ،ھر طرف سے اس پر مصیبتوں کی یلغار ھو رھی ھو ،اسی صورت میں آپ(ع) اھل و عیال اور باقی بچوں کو رخصت فر مارھے تھے ،آپ(ع) ان خیموں کے نزدیک ھوئے جن میں ناموس نبوت اور علی(ع) و زھرا(ع)کی بیٹیاں تھیں تو خوفزدہ مخدرات عصمت و طھارت نے قطا نامی پرندہ کی طرح اپنے حلقے میں لے لیا حالانکہ آپ(ع) کے جسم سے خون بہہ رھا تھا تو کیا کو ئی انسان اس خوفناک مو قع میں امام حسین(ع) اور ان کی مخدرات عصمت و طھارت کے حال کو بیان کرنے کی تاب لا سکتا ھے اورکیا اس کا دل پھٹ نھیں جائے گا،اس کے ھوش نھیں اڑجا ئیں گے اور اس کی آنکھوں سے آنسو جا ری نہ ھوجا ئیں گے“۔[2]

امام حسین(ع) پر اپنے اھل و عیال کوان مصائب میں رخصت کر نا بہت مشکل تھا حالانکہ رسول اللہ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی بیٹیاں اپنے منھ پیٹ رھی تھیں ،بلند آواز سے گریہ و زاری کر رھی تھیں،گویا وہ اپنے جد رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) پر گریہ کر رھی تھیں ،انھوں نے بڑی مشکلوں کے ساتھ آپ(ع) کو رخصت کیا ،اس عجیب منظر کا امام حسین(ع) پرکیا اثر ھوا اس کو اللہ کے علاوہ اور کو ئی نھیں جانتا ھے ۔

عمر بن سعد خبیث النفس نے ہتھیاروں سے لیس اپنی فوج کو یہ کہتے ھوئے امام(ع) پر حملہ کرنے کے لئے بلایا:ان پر اپنے حرم سے رخصت ھونے کے عالم میں ھی حملہ کردو ،خدا کی قسم اگر یہ اپنے اھل حرم کو رخصت کر کے آگئے تو تمھارے میمنہ کومیسرے پر پلٹ دیں گے ۔

ان خبیثوں نے آپ(ع) پر اسی وقت تیروں کی بارش کر نا شروع کردی تیر وںسے خیموں کی رسیاںکٹ گئیں ،بعض تیر بعض عورتوں کے جسم میں پیوست ھو گئے وہ خوف کی حالت میں خیمہ میں چلی گئیں،امام حسین(ع) نے خیمہ سے غضبناک شیر کے مانند نکل کر ان مسخ شدہ لوگوں پرحملہ کیا،آپ(ع) کی تلوار ان خبیثوں کے سرکاٹنے لگی آپ(ع)کے جسم اطھر پر دا ئیں اور بائیں جانب سے تیر چلے جو آپ(ع) کے سینہ پر لگے اور ان تیروں میں سے کچھ تیر وںکی داستان یوں ھے :

۱۔ایک تیر آپ(ع) کے دھن مبارک پر لگا تواس سے خون بھنے لگا آپ(ع) نے زخم کے نیچے اپنا دست مبارک کیا جب وہ خون سے بھر گیا تو آپ(ع) نے آسمان کی طرف بلند کیا اور پروردگار عالم سے یوں گویا ھوئے : ”اللّھم اِنّ ھذا فیک قلیل ٌ“۔[3]

”خدایا یہ تیری بارگاہ کے مقابلہ میں نا چیز ھے “۔

۲۔ابو الحتوف جعفی کاایک تیر، نور نبوت اور امامت سے تابناک پیشا نی پر لگا آپ(ع) نے اس کو نکال کر پھینکاتو خون ابلنے لگا تو آپ(ع) نے خون بھانے والے مجرمین کے لئے اپنی زبان مبارک سے یہ کلمات ادا کئے :”پروردگارا ! تو دیکھ رھاھے کہ میں تیرے نا فرمان بندوں سے کیا کیا تکلیفیں سہ رھاھوں ،پروردگارا تو ان کو یکجا کرکے ان کوبے دردی کے ساتھ قتل کر دے، روئے زمین پر ان میں سے کسی کو نہ چھوڑاور ان کی مغفرت نہ کر “۔

لشکر سے چلا کر کھا :”اے بری امت والو!تم نے رسول کے بعد ان کی عترت کے ساتھ بہت برا سلوک کیا،یاد رکھوتم میرے بعدکسی کو قتل نہ کر سکو گے جس کی بنا پر اس کو قتل کرنے سے ڈروبلکہ میرے قتل کے بعددوسروں کو قتل کرنا آسان ھو جا ئے گا خدا کی قسم میں امید رکھتا ھوں کہ خدا شھادت کے ذریعہ مجھے عزت دے اور تم سے میرا اس طرح بدلہ لے کہ تمھیںاحساس تک نہ ھو ۔۔۔“[4]۔

کیا رسول اللہ جنھوں نے ان کو مایوس زندگی اور شقاوت سے نجات دلا ئی ان کا بدلہ یہ تھا کہ حملہ کرکے ان کا خون بھا دیاجائے اور ان کے ساتھ ایسا سلوک کیاجس سے رونگٹے کھڑے ھوجاتے ھیںخدا نے امام کی دعا قبول کی اوراس نے امام حسین(ع) کے مجرم دشمنوں سے انتقام کے سلسلہ میں دعا قبول فرمائی اور کچھ مدت نھیں گذری تھی کہ دشمنوں میں پھوٹ پڑگئی اور جناب مختار نے امام(ع) کے خون کا بدلہ لیا،ان پر حملہ کرنااور ان کو پکڑنا شروع کیاوہ مقام بیدا پر چلے گئے تو جناب مختار نے ان پر حملہ کیا یھاں تک کہ ان میں سے اکثر کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔

زھری کا کھنا ھے: امام حسین(ع) کے ھر قاتل کو اس کے کئے کی سزا دی گئی ،یا تو وہ قتل کردیا گیا ، یا وہ اندھا ھوگیا،یا اس کا چھرہ سیاہ ھوگیا ،یا کچھ مدت کے بعد وہ دنیا سے چل بسا ۔[5]

۳۔امام(ع) کے لئے اس تیرکو بہت ھی بڑا تیر شمار کیا جاتا ھے ۔مو رخین کا بیان ھے :امام(ع) خون بھنے کی وجہ سے کچھ دیر سے آرام کی خاطر کھڑے ھوئے تو ایک بڑا پتھر آپ(ع) کی پیشا نی پر آکر لگا آپ(ع) کے چھرے  سے خون بھنے لگا ،آپ(ع)کپڑے سے اپنی آنکھو ں سے خون صاف کرنے لگے تو ایک تین بھال کا تیر آپ(ع) کے اس دل پر آکر لگاجو پوری دنیائے انسانیت کے لئے مھر و عطوفت سے لبریز تھا آپ(ع) کواسی وقت اپنی موت کے قریب ھونے کا یقین ھو گیا آپ(ع) نے اپنی آنکھوں کو آسمان کی طرف اٹھا کر یوں فرمایا:”بسم اللّٰہ وباللّٰہ، وعلیٰ ملّة رسول اللّٰہِ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) ،الٰہي اِنّکَ تعلمُ اَنّھُم یقتلُوْنَ رجُلاً لیسَ علیٰ وجہ الارض ابنُ بِنتِ نبیٍ غَیْرِہِ “۔

تیر آپ کی پشت سے نکل گیا ،تو پرنالے کی طرح خون بھنے لگا آپ(ع)نے اپنے دونوں ھاتھوں میں خون لینا شروع کیا جب دونوں ھاتھ خون میں بھر گئے تو آپ(ع) نے وہ خون آسمان کی طرف پھینکتے ھوئے فرمایا: ”ھوَّنَ مَانَزَلَ بِیْ اَنَّہُ بِعَیْنِ اللّٰہِ “۔”معبود میرے اوپر پڑنے والی مصیبتوں کو آسان کردے بیشک یہ خدا کی مدد سے ھی آسان ھو سکتی ھیں“۔

امام(ع) نے اپنا خون اپنی ریش مبارک اور چھرے پر ملا حالانکہ آپ(ع) کی ھیبت انبیاء کی ھیبت کی حکایت کر رھی تھی اور آپ فر مارھے تھے :ھکذااکون حتی القی اللّٰہ وجدي رسول اللّٰہ واَنا مخضبُ بدمي ۔۔۔“۔[6]”میں اسی طرح اپنے خون سے رنگی ھوئی ریش مبارک کے ساتھ اللہ اور اپنے جد رسول اللہ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) سے ملاقات کروں گا“

۴۔حصین بن نمیر نے ایک تیر مارا جو آپ(ع) کے منھ پر لگا،آپ(ع) نے زخم کے نیچے اپنا دست مبارک کیا جب وہ خون سے بھر گیا تو آپ(ع) نے آسمان کی طرف بلند کیا اور مجرموں کے متعلق پروردگار عالم سے یوں عرض کیا:”اللّھم احصھم عدداًواقتُلھم بدداً،ولا تذرعلی الارض منھم احداً“۔[7]۔

آپ(ع) پرتیروں کی اتنی بارش ھوئی کہ آپ(ع) کا بدن ٹکڑے ٹکڑے ھوگیا ،جسم سے خون بھا اورآپ پر پیاس کا غلبہ ھوا تو آپ(ع) زمین پر بیٹھ گئے حالانکہ آپ(ع) کی گردن میں سخت درد ھورھاتھا ، (آپ(ع) اسی حالت میں بیٹھے ھوئے تھے کہ )خبیث مالک بن نسیر نے آپ(ع) پر حملہ کر دیا اس نے آپ پر سب و شتم کیا، تلوار بلند کی آپ(ع) کے سر پر خون سے بھری ایک بلند ٹوپی تھی امام(ع) نے اس کو ظالم کی طرف پھینکتے ھوئے اس کے لئے یہ کلمات ادا کئے :”لااَکلتَ بیمینک ولاشربتَ،وحشرک اللّٰہ مع الظالمین “۔

آپ نے لمبی ٹوپی پھینک کر ٹوپی پر عمامہ باندھاتو ظالم نے دوڑ کر لمبی ٹوپی اٹھائی تو اس کے ھاتھ شل ھو گئے ۔[8]

**********

[1] مقتل الحسین المقرم ،صفحہ ۳۳۷۔

[2] جنة الماویٰ، صفحہ ۱۱۵۔

[3] الدر التنظیم، صفحہ ۱۶۸۔

[4] مقتل حسین ”مقرم ،صفحہ ۳۳۹۔

[5] عیون الاخبار، مو لف ابن قتیبہ ،جلد ۱،صفحہ ۱۰۳۔۱۰۴۔

[6] مقتل خوارزمی، جلد ۲ ،صفحہ ۳۴۔

[7] انساب الاشراف، جلد ۱، صفحہ ۲۴۰۔

[8] انساب الاشراف ،جلد ۳،صفحہ ۲۰۳۔