امام(ع) پر حملہ

مجرموں کے اس پلید و نجس وخبیث گروہ نے فرزند رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) پرحملہ شروع کردیاانھوں نے امام(ع) پر ھر طرف سے تیروں اور تلواروں سے حملہ کیازرعہ بن شریک تمیمی نے پھلے آپ(ع) کے با ئیں ھاتھ پر تلوار لگا ئی اس کے بعد آپ(ع) کے کاندھے پر ضرب لگا ئی ،اور سب سے کینہ رکھنے والا دشمن سنان بن انس خبیث تھا، اس نے ایک مرتبہ امام(ع) پر تلوار چلا ئی اور اس کے بعد اس نے نیزہ سے وار کیا اور اس بات پر بڑا فخر کر رھاتھا، اس نے حجّاج کے سامنے اس بات کو بڑے فخر سے یوںبیان کیا :میں نے ان کو ایک تیر مارا اور دو سری مرتبہ تلوار سے وار کیا ،حجّاج نے اس کی قساوت قلبی دیکھ کر چیخ کر کھا :اَما انکما لن تجتمعافي دار ۔[1]

اللہ کے دشمنوں نے ھر طرف سے آپ(ع) کو گھیر لیا اور ان کی تلواروں نے آپ(ع) کاپا ک خون بھادیا،بعض مو رخین کا کھنا ھے :اسلام میں امام حسین(ع) جیسی مثال کو ئی نھیں ھے ،امام حسین(ع) کے جسم پر تلواروں اور نیزوں کے ایک سو بیس زخم تھے ۔[2]

امام حسین(ع) کچھ دیر زمین پر ٹھھرے رھے آپ(ع) کے دشمن بکواس کرتے رھے اور آپ(ع) کے پاس آنے کے متعلق تیاری کرتے رھے ۔اس سلسلہ میں سید حیدر کہتے ھیں:

فمااجلتِ الحربُ عنْ مِثْلِہِ

 

صریعایُجَبِّنُ شُجْعانُھَا

”حالانکہ آپ(ع) زمین پر بے ھوش پڑے تھے پھر بھی کو ئی آپ(ع) کے نزدیک آنے کی ھمت نھیں کررھا تھا “۔

 سب کے دلوں آپ(ع) کی ھیبت طاری تھی یھاں تک کہ بعض دشمن آپ کے سلسلہ میں یوں کھنے لگے : ھم ان کے نورا نی چھرے اور نورا نی پیشانی کی وجہ سے ان کے قتل کی فکر سے غافل ھوگئے ۔

جو شخص بھی امام(ع) کے پاس ان کو قتل کرنے کے لئے جاتا وہ منصرف ھو جاتا ۔[3]

  چادر میںلپٹی ھوئی رسول اللہ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی نواسی زینب(ع) خیمہ سے باھر آئیں وہ اپنے حقیقی بھائی اور بقیہ اھل بیت کو پکار رھی تھیںاور کہہ رھی تھیں :کاش آسمان زمین پر گر پڑتا ۔

ابن سعد سے مخاطب ھو کر کھا :(اے عمر !کیا تو اس بات پر راضی ھے کہ ابو عبد اللہ قتل کردئے جائیں اور تو کھڑا ھوا دیکھتا رھے ؟)اس خبیث نے اپنا چھرہ جھکا لیا ،حالانکہ اس کی خبیث ڈاڑھی پر آنسو بہہ رھے تھے، [4] عقیلہ بنی ھاشم جناب زینب سلام اللہ علیھا اس انداز میں واپس آرھی تھیںکہ آپ کی نظریں بھا ئی پر تھیںلیکن اس عالم میں بھی صبر و رضا کا دامن ھاتھ سے نھیں چھوڑا،آپ واپس خیمہ میں عورتوں اور بچوںکی نگھبانی کے لئے اُن کے پاس پلٹ آئیں ۔

امام(ع) بہت دیر تک اسی عالم میں رھے حالانکہ آپ(ع) کے زخموں سے خون جا ری تھا ، آپ(ع) قتل کر نے والے مجرموں سے یوں مخاطب ھوئے :”کیا تم میرے قتل پر جمع ھو گئے ھو ؟،آگاہ ھوجاؤ خدا کی قسم! تم میرے قتل کے بعد اللہ کے کسی بندے کو قتل نہ کرپاؤگے ،خدا کی قسم !مجھے امید ھے کہ خدا تمھاری رسوا ئی کے عوض مجھے عزت دے گا اور پھر تم سے اس طرح میرا انتقام لے گاکہ تم سوچ بھی نھیں سکتے ۔۔۔“۔

شقی اظلم سنان بن انس تلوار چلانے میں مشھور تھا اس نے کسی کو امام(ع) کے قریب نھیں ھو نے دیا چونکہ اس کو یہ خوف تھا کہ کھیں کو ئی اور امام(ع) کاسر قلم نہ کر دے اور وہ ابن مرجانہ کے انعام و اکرام سے محروم رہ جائے۔

اس نے امام(ع) کا سر تن سے جدا کیا حالانکہ امام کے لب ھائے مبارک پر سکون و اطمینان ،فتح و نصرت اور رضائے الٰھی کی مسکراہٹ تھی جو ھمیشہ ھمیشہ باقی رھے گی ۔

امام(ع) نے قرآن کریم کو بیش قیمت روح عطا کی ،اور ھر وہ شرف و عزت عطا کی جس سے انسانیت کا سر بلند ھوتا ھے ۔۔اور سب سے عظیم اور بیش قیمت جو امام(ع) خرچ کی وہ اپنی اولاد ،اھل بیت اور اصحاب مصیبتیں دیکھنے کے بعد مظلوم ،مغموم اور غریب کی حالت میں قتل ھو جانا ھے اور اپنے اھل و عیال کے سامنے پیاسا ذبح ھو جانا ھے ،اس سے بیش قیمت اور کیا چیز ھو سکتی ھے جس کو امام(ع)نے مخلصانہ طور پر خدا کی راہ میں پیش کر دی ؟

 امام(ع) نے خدا کی راہ میں قربانی دے کر تجارت کی ،یہ تجارت بہت ھی نفع آور ھے جیساکہ خداوند عالم فرماتا ھے :< إِنَّ اللهَ اشْتَرَی مِنْ الْمُؤْمِنِینَ اٴَنفُسَہُمْ وَاٴَمْوَالَہُمْ بِاٴَنَّ لَہُمْ الْجَنَّةَ یُقَاتِلُونَ فِی سَبِیلِ اللهِ فَیَقْتُلُونَ وَیُقْتَلُونَ وَعْدًا عَلَیْہِ حَقًّا فِی التَّوْرَاةِ وَالْإِنجِیلِ وَالْقُرْآنِ وَمَنْ اٴَوْفَی بِعَہْدِہِ مِنْ اللهِ فَاسْتَبْشِرُوا بِبَیْعِکُمْ الَّذِی بَایَعْتُمْ بِہِ وَذَلِکَ ہُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیمُ>۔[5]

”بیشک اللہ نے صاحب ایمان سے اُن کی جان و مال کو جنت کے عوض خرید لیا ھے کہ یہ لوگ راہ خدا میں جھاد کرتے ھیں اور دشمنوں کو قتل کرتے ھیں اور پھر خود بھی قتل ھو جاتے ھیں یہ وعدئہ برحق توریت ، انجیل اور قرآن ھر جگہ ذکر ھوا ھے اور خدا سے زیادہ اپنے عھد کا کون پورا کرنے والا ھوگا، تو اب تم لوگ اپنی اس تجارت پر خو شیاں مناؤ جو تم نے خدا سے کی ھے کہ یھی سب سے بڑی کا میابی ھے “۔

بیشک امام حسین(ع) نے اپنی تجارت سے بہت فائدہ اٹھایا اور فخر کے ساتھ آپ(ع)کے ساتھ کامیاب ھوئے جس میں آپ(ع) کے علاوہ اور کو ئی کامیاب نھیں ھوا ،شھداء ِ حق کے خاندان میں کسی کو بھی  کو ئی شرف و عزت و بزرگی اور دوام نھیں ملا جو آپ(ع) کو ملا ھے ،اس دنیا میں بلندی کے ساتھ آپ(ع) کا تذکرہ (آج بھی ) ھورھا ھے اور آپ(ع) کا حرم مطھرزمین پر بہت ھی با عزت اورشان و شوکت کے ساتھ موجود ھے ۔

اس امام عظیم کے ذریعہ اسلام کا وہ پرچم بلندی کے ساتھ لھر ارھا ھے جو آپ(ع) کے اھل بیت اور اصحاب میں سے شھید ھونے والوں کے خون سے رنگین ھے، یھی پرچم کا ئنات میں،دنیا کے گوشہ گوشہ میں آپ(ع) کے انقلاب اور کرامت و بزرگی کو روشن و منور کر رھا ھے ۔ 

**********

[1] مجمع الزوائد،جلد ۹،صفحہ ۱۹۴۔

[2] الحدائق الوردیہ ،جلد ۱،صفحہ ۱۲۶۔

[3] انساب الاشراف ،جلد ۳،صفحہ ۲۰۳۔

[4] جواھر المطالب فی مناقب امام علی بن ابی طالب، صفحہ ۱۳۹۔

[5] سورئہ توبہ ،آیت ۱۱۱۔