نبی (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی حسین(ع) سے محبت

حضرت رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) اپنے فرزند ارجمند امام حسین علیہ السلام سے بے انتھا محبت کیا کرتے تھے آپ کے نزدیک امام حسین علیہ السلام کی شان و منزلت اور کیا مقام تھا اس سلسلہ میں آپ کی بعض احادیث مندرجہ ذیل ھیں :

۱۔جابر بن عبداللہ سے مروی ھے کہ رسول کا فرمان ھے :”من اراد ان ینظرالیٰ سید شباب اھل الجنة فلینظرالیٰ الحسین بن علی“۔[1]

”جوشخص جنت کے جوانوں کے سردار کو دیکھنا چا ہتا ھے وہ حسین بن علی کے چھرے کو دیکھے“۔

۲۔ابو ھریرہ سے روایت ھے :میں نے دیکھا ھے کہ رسول اللہ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) امام حسین(ع) کو اپنی آغوش میں لئے ھوئے یہ فرما رھے تھے :”اللھم انی احِبُّہ فاحبّہ “۔[2]

”پروردگار میں اس سے محبت کرتا ھوں تو بھی اس سے محبت کر “۔

۳۔یعلی بن مرہ سے روایت ھے :ھم نبی اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے ساتھ ایک دعوت میں جا رھے تھے تو آنحضرت نے دیکھا کہ حسین(ع) سکوں سے کھیل رھے ھیں تو آپ نے کھڑے ھوکر اپنے دونوں ھاتھ امام(ع) کی طرف پھیلادئے ،آپ مسکرارھے تھے اور کہتے جا رھے تھے، بیٹا ادھر آؤ ادھرآؤیھاں تک کہ آپ نے امام حسین(ع) کو اپنی آغوش میں لے لیاایک ھاتھ ان کی ٹھڈی کے نیچے رکھا اور دوسرے سے سر پکڑ کر ان کے بوسے لئے اور فرمایا:”حسین منی وانامن حسین،احب اللّٰہ من احب حسینا،حسین سبط من الاسباط“[3]۔

”حسین(ع) مجھ سے ھے اور میں حسین(ع)سے ھوںخدایاجو حسین(ع)محبت کرے تو اس سے محبت کر ، حسین(ع) بیٹوں میں سے ایک بیٹا ھے “

یہ حدیث نبی اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) اور امام حسین علیہ السلام کے درمیان عمیق رابطہ کی عکا سی کرتی ھے، لیکن اس حدیث میں نبی کا یہ فرمان کہ ”حسین منی “حسین مجھ سے ھے “اس سے نبی اور حسین(ع) کے مابین نسبی رابطہ مراد نھیں ھے چونکہ اس میں کو ئی فا ئدہ نھیں ھے بلکہ یہ بہت ھی گھری اور دقیق بات ھے کہ حسین(ع) نبی کی روح کے حا مل ھیںوہ معاشرئہ انسا نی کی اصلاح اور اس میں مسا وات کے قا ئل ھیں۔

یکن آپ کا یہ فرمان:”وانا من حسین “”اور میں حسین سے ھوں “ اس کا مطلب یہ ھے کہ امام حسین علیہ السلام مستقبل میں اسلام کی راہ میں قربا نی دے کر رہتی تاریخ تک اسلام کو زندئہ جا وید کریں گے ، لہٰذا حقیقت میں نبی حسین(ع)سے ھیں کیونکہ امام حسین(ع) نے ھی آپ کے دین کو دوبارہ جلا بخشی ، ان طاغوتی حکومتوں کے چنگل سے رھا ئی دلائی جو دین کو مٹا نا اور زند گی کو جا ھلیت کے دور کی طرف پلٹانا چا ہتے تھے ، امام حسین(ع)نے قر بانی دے کر امویوں کی بنیادوں کو اکھاڑ پھینکا اور مسلمانوں کو ان کے ظلم و ستم سے آزاد کرایا۔

۴۔سلمان فا رسی سے روایت ھے :جب میں نبی کی خدمت میں حا ضر ھوا تو امام حسین(ع) آپ کی ران پر بیٹھے ھوئے تھے اور نبی آپ کے رخسار پر منھ ملتے ھوئے فر ما رھے تھے :

”انت سید ُبْنُ سَیَّد،انت امام بن امام،وَاَخُوْااِمَامٍ،وَاَبُوالاَئِمَةِ،وَاَنْتَ حُجَّةُ اللّٰہِ وَابْنُ حُجَّتِہِ،وَاَبُوْحُجَجٍ تِسْعَةٍ مِنْ صُلْبِکَ،تَاسِعُھُمْ قَائِمُھُمْ“۔[4]

”آپ سید بن سید،امام بن امام ،امام کے بھا ئی،ائمہ کے باپ ،آپ اللہ کی حجت اور اس کی حجت کے فرزند،اور اپنے صلب سے نو حجتوں کے باپ ھیں جن کا نواں قا ئم ھوگا “۔

۵۔ابن عباس سے مروی ھے :رسول اسلام اپنے کا ندھے پر حسین(ع) کو بٹھا ئے لئے جا رھے تھے تو ایک شخص نے کھا : ”نِعم المرکب رکبت یاغلام ،فاجا بہ الرسول :”ونعم الراکب ھُوَ“۔[5]

”کتنا اچھا مرکب (سواری )ھے جو اس بچہ کو اٹھا ئے ھوئے ھے، رسول اللہ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے جواب میں فرمایا:”یہ سوار بہت اچھا ھے “۔

۶۔رسول اللہ کا فرمان ھے :”ھذا(یعنی :الحسین(ع) )امام بن امام ابوائمةٍ تسعةٍ“۔[6]

”یہ یعنی امام حسین(ع) امام بن امام اور نو اماموں کے باپ ھیں“۔

۷۔یزید بن ابو زیاد سے روایت ھے :نبی اکر م(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) عا ئشہ کے گھر سے نکل کر حضرت فاطمہ زھرا(ع) کے بیت الشرف کی طرف سے گذرے تو آپ کے کانوں میں امام حسین(ع) کے گریہ کرنے کی آواز آ ئی، آپ بے چین ھوگئے اور جناب فاطمہ(ع) سے فر مایا:”اَلَمْ تَعْلَمِیْ اَنَّ بُکَائَہُ یُوْذِیْنِیْ؟“۔[7]

”کیا تمھیں نھیں معلوم حسین کے رونے سے مجھ کو تکلیف ھو تی ھے “۔

یہ وہ بعض احا دیث تھیں جو رسول اسلام(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے اپنے بیٹے امام حسین(ع) سے محبت کے سلسلہ میں بیان فرما ئی ھیں یہ شرافت و کرامت کے تمغے ھیں جو آپ(ع) نے اس فرزند کی گردن میں آویزاں کئے جو بنی امیہ کے خبیث افراد کے حملوں سے آپ(ع) کے اقدار کی حفاظت کر نے والا تھا ۔

**********

[1] سیر اعلام النبلاء ،جلد ۳،صفحہ ۱۹۰۔تاریخ ابن عساکر خطی ،جلد ۱۳،صفحہ ۵۰۔

[2] مستدرک حاکم ،جلد ۳،صفحہ ۱۷۷۔نور الابصار، صفحہ ۱۲۹:اللھم انی اُ حِبُّہ وَ اُحِبَّ کُلَّ مَنْ یُحِبُّہُ“۔

”خدایا میں اس کو دوست رکھتا اور جو اس کو دوست رکھتا ھے اس کوبھی دوست رکھتاھوں“

[3] سنن ابن ماجہ ،جلد ۱،صفحہ ۵۶۔مسند احمد، جلد ۴،صفحہ ۱۷۲۔اسد الغابہ، جلد ۲،صفحہ ۱۹۔تہذیب الکمال،صفحہ ۷۱۔تیسیر الوصول ،جلد ۳، صفحہ ۲۷۶۔مستدرک حاکم ،جلد ۳،صفحہ ۱۷۷۔

[4] حیاةالامام حسین(ع)، جلد ۱،صفحہ ۹۵۔

[5] تاجِ جامع للاصول ،جلد ۳،صفحہ ۲۱۸۔

[6] منھاج السنة، جلد ۴،صفحہ ۲۱۰۔

[7] مجمع الزوائد، جلد ۹،صفحہ ۲۰۱۔سیر اعلام النبلاء ،جلد ۳،صفحہ ۱۹۱۔ذخائر العقبی ،صفحہ ۱۴۳۔