فضائل حضرت عباس

مولف کہتے ہیں کہ امام علی بن الحسین سے ایک روایت ہے کہ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ آپ نے فرمایا: خدائے تعالیٰ حضرت عباس- پر رحمت کرے کہ جنہوں نے اپنی کچھ پروا نہ کی اور اپنی جان اپنے بھائی امام حسین- پر قربان کردی۔ یہاں تک کہ بھائی کی نصرت کرتے ہوے ان کے دونوں بازو قلم ہو گئے۔ تاہم حق تعالیٰ نے ان کو کٹے ہوئے بازوئوں کے بدلے میں دو پر عطا کر دیئے ہیںکہ جن سے وہ جنت میں جعفر طیار(ع) کی طرح فرشتوں کے ساتھ پرواز کرتے ہیں۔ نیز خداوند عالم کے ہاں حضرت عباس (ع)کی اتنی قدر و عزت ہے کہ جس کو دیکھ کر دیگر شہدائ قیامت میں ان پر رشک کریں گے اور ان کے مقام و مرتبہ کی خواہش کریں گے۔ بیان کیا گیا ہے کہ وقت شہادت حضرت عباس (ع) کی عمر چونتیس برس تھی اورجناب ام البنین = جو ان کی والدہ تھیں وہ مدینہ کے باہر قبرستان بقیع میںآ کر حضرت عباس- اور ان کے دیگر تین بھائیوں کا ماتم کرتے ہوئے اس طرح روتیں اور بین کرتی تھیں کہ جو بھی وہاں سے گزرتا وہ آنسو بہانے لگتا تھا دوستوں اور چاہنے والوں کا رونا تو کوئی بڑی بات نہیں ان بی بی کا نوحہ و ماتم سن کر تو مروان بن الحکم بھی رو دیتا تھا جو خاندان رسول کا سخت ترین دشمن تھا حضرت عباس- اور انکے بھائیوں کے مرثیہ میں یہ اشعار بی بی ام البنین = سے نقل ہوئے ہیں:

یَامَنْ رَٲیٰ الْعَبّاسَ کَرَّعَلی جَماھِیرِالنَّقَد
وَوَراہُ مِنْ ٲَبْنائِ حَیْدَرَکُلُّ لَیْثٍ ذِی لَبَد
اے وہ جس نے عباس (ع)کو دیکھا جب بزدلوں پر حملہ کرتا تھا
ان کے پیچھے حیدر کرار کے بیٹے تھے جو ببر شیروں کی طرح تھے 

ٲُنْبِیْتُ ٲَنَّ ابْنِی ٲُصِیبَ بِرَٲْسِہِ مَقْطُوعَ یَد
وَیْلِی عَلیٰ شِبْلِی ٲَمالَ بِرَٲْسِہِ ضَرْبُ الْعَمَد
مجھے خبر ملی کہ میرا بیٹا سر کے بل گرا اور اس کے بازو کٹے ہوئے تھے 
ہائے میری مصیبت کہ گرز کی ضرب سے میرے بیٹے کا سرکٹ گیا

لَوْ کانَ سَیْفُکَ فِی یَدَیْکَ لَمَا دَنا مِنْہُ ٲَحَد۔
بیٹے اگر تیری تلوار تیرے ہاتھ میں ہوتی تو کوئی قریب نہ آ سکتا۔

نیز یہ اشعار بھی جناب ام البنین= کی طرف منسوب ہیں۔
لاَ تَدْعُوِنِّی وَیْکِ ٲُمَّ الْبَنِین
تُذَکِّرِینِی بِلُیُوثِ الْعَرِین
اب مجھے بیٹوں کی ماں نہ کہا کرو 
کہ تم مجھے شیر دل بہادروں کی یاد دلاتے ہو

کانَتْ بَنُونَ لِی ٲُدْعی بِھِمْ
وَالْیَوْمَ ٲَصْبَحْتُ وَلاَ مِنْ بَنِین
میرے بیٹے تھے تو مجھے بیٹوں والی کہا جاتا تھا
اب جو صبح ہوتی ہے تو میرے بیٹے کہیں نظر نہیں آتے

ٲَرْبَعَۃٌ مِثْلُ نُسُورِ الرُّبیٰ
قَدْ وا صَلُوا الْمَوْتَ بِقَطْعِ الْوَتِین
میرے چاروں بیٹے پہاڑوں کے شہباز تھے 
وہ باری باری شہید ہوئے ان کی گردنیں کٹ گئیں

تَنازَعَ الْخِرْصانُ ٲَشْلائَھُمْ
فَکُلُّھُمْ ٲَمْسی صَرِیعاً طَعِین
ان پر نیزہ برداروں نے ہر طرف سے ہجوم کیا
تو وہ زخموں سے چور ہو کر زمین پر گر گئے

یَا لَیْتَ شِعْرِی ٲَکَما ٲَخْبَرُوا
بِٲَنَّ عَبّاساً قَطِیعُ الْیَمِین
ہائے افسوس میں سمجھ پاتی جیسے لوگوں نے کہا
کہ عباس کا دایاں بازو پہلے کٹا تھ